تحقیق الکلام فی بیان السبب لوجوب الاحکام

                                      از: رشید احمد فریدی،  مدرسہ مفتاح العلوم، تراج، سورت

 

الحمد للّٰہ الذی ہدانا الی الصراط المستقیم والصلاة والسلام علی من اختص بالخلق العظیم وعلی آلہ وصحبہ الذین قاموا بنصرة الدین القویم. اما بعد!

شریعت پانچ قسم کے احکام کامجموعہ ہے، عقائد، عبادات، معاملات، معاشرت اور اخلاقیات۔ عبادات کی تین قسمیں ہیں: (۱) بدنی جیسے نماز، روزہ، اعتکاف وغیرہ۔ (۲) مالی جیسے زکوٰة، صدقہ، قربانی وغیرہ (۳) مشترک جیسے حج اور عمرہ۔ ان میں سے ہر عبادت اپنی امتیازی خصوصیات کی وجہ سے دوسری عبادت سے مستقل اور ممتاز ہے اور بعض اعتبارات سے ایک دوسری کے مشابہ ومماثل ہے اوریہ آپس میں اس قدر مربوط ہیں کہ شارعِ مطلق کی قدرت علی الاطلاق پر شاہد ہیں۔

ہر انسان صاحبِ ذمہ پیدا ہوتا ہے

ہر انسان عہد اَلَسْت کی بناء پر دنیا میں صاحب ذمہ پیداہوتا ہے اورپیدائش سے قبل دوسرے انسان یعنی ماں کا جزء ہونے کی وجہ سے صاحب ذمہ ہونا پورے طور پر ظاہر نہیں ہوتا اور پیدا ہوتے ہی اہل ذمہ بن گیا مگر یہ ذمہ ناقص اور کمزور ہوتا ہے اس لیے منافع کا حقدار تو بن جاتا ہے مضار کا مستوجب نہیں ہوتا چنانچہ صبی اُن چیزوں کا مالک ہوجاتا ہے جن میں منفعت خالصہ ہے۔ جیسے ہدیہ وغیرہ اور جن میں مضرتِ خالصہ ہے بچہ اس کا ذمہ دار نہیں ہوتا۔ پھر عقل میں عمر کے ساتھ ساتھ جب پختگی آنے لگتی ہے یہاں تک کہ وہ عرف میں عاقل سمجھا جانے لگتا ہے اگرچہ ابھی کامل نہ ہو شریعت کی نظر میں ایسے صبیٴ عاقل کا ایمان معتبر سمجھا گیا ہے اس لیے کہ ایمان احکامِ نظریہ میں سے ہے جس کے لیے عقل ضروری ہے اور وہ معتد بہ مقدار میں موجود ہے مگر ابھی خام ہونے کی وجہ سے ایمان کا وجوب متوجہ نہیں ہوا بخلاف کافر (بالغ) کے کہ اس کی طرف ایمان کا وجوبِ اداء متوجہ ہے البتہ ثوابِ آخرت کا اہل نہ ہونے کی وجہ سے شرائع کا وجوب ہی نہیں ہوتا ہاں عقوبات کا لزوم اس پر زجراً ہے۔ پس نفس ایمان کا وجوب عقل سے اور وجوبِ اداء یعنی ایمان لانے کا مطالبہ کمالِ عقل یعنی بلوغ کے بعدہوتا ہے۔ لہٰذا ادائے ایمان کے لیے نفسِ وجوب کافی ہے اور وجوبِ اداء کے لیے عقل و بلوغ دونوں شرط ہیں۔

اہلیت کی تفصیل

الاہلیة نوعان اہلیة الوجوب واہلیة الاداء اما اہلیة الوجوب فبناء علی قیام الذمة فان الآدمی یولد ولہ ذمة صالحة للوجوب لہ وعلیہ باجماع الفقہاء وقبل الانفصال ہو جزء من وجہٍ فلم یکن لہ ذمة مطلقة حتی صلح یجب لہ الحق ولم یجب علیہ واذا انفصل وظہرت لہ ذمة مطلقة کان اہلا للوجوب لہ وعلیہ غیر ان الوجوب غیر مقصود بنفسہ فجاز ان یبطل لعدم حکمہ وغرضہ کما ینعدم لعدم محلہ ولہذا لم یجب علی الکافر شیٴ من الشرائع التی ہی الطاعات لما لم یکن اہلا لثواب الآخرة ولزمہُ الایمان کان اہلا لادائہ ووجوب حکمہ ولم یجب علی الصبی الایمان قبل ان یعقل لعدم اہلیة الاداء واذا عقل واحتمل الاداء قلنا بوجوب اہل الایمان علیہ دون اصل الایمان حتی صح الاداء من غیر تکلیف وکان فرضا کالمسافر یوٴدِّی الجمعة.

واما اہلیة الاداء فنوعان قاصر وکامل اما القاصر فیثبت بقدرة البدن اذا کانت قاصرة قبل البلوغ وکذلک بعد البلوغ فیمن کان معتوہا لانہ بمنزلة الصبی لانہ عاقل لم یعتدل عقلہ وتبتنی علی الاہلیة القاصرة صحة الاداء وعلی الاہلیة الکاملة وجوبُ الاداء. (حسامی:۱۳۳)

یہیں سے اصولی طور پر تین چیزیں معلوم ہوئیں: اوّل اہلیت وجوب، دوم وجوبِ اداء، سوم صحة اداء۔

وجوب کی قسمیں

اہلیتِ وجوب اور وجوب اداء دونوں الگ الگ ہیں۔ اور وجوبِ اداء اصل وجوب یعنی اہلیتِ وجوب سے منفک اورموٴخر ہوتا ہے۔ واما علی اصطلاح الحنفیة فالوجوب ینفک عن وجوب الاداء. (تقریر وتحبیر:۲/۱۵۴)

مالی عبادت میں ان دونوں وجوب کا انفکاک یعنی علیحدگی جیسے ملک نصاب کی وجہ سے اصلِ وجوب کا ثبوت اور بعد میں اپنے اپنے وقت خاص پر وجوبِ اداء کا تحقق بالکل واضح ہے اور عرفاً بھی سمجھا اور بولا جاتا ہے بخلاف بدنی عبادت کے کہ اس میں بدن (جوکہ محل وجوب اورمحل اداء ہے) انسان پیدائش سے ہی لے کر آتا ہے اور مطلق وقت یعنی زمان سے کوئی بے نیاز نہیں ہے اس لیے بالغ ہوتے ہی نماز، روزہ کا اصل وجوب (جو ایک اعتباری شیٴ اورغیرمقصود بالذات ہے وہ) ثابت ہوجاتا ہے البتہ مالی عبادت کے نفس وجوب کی طرح محسوس ونمایاں نہیں ہوتا اور جو معلوم و ظاہر ہے وہ وقت خاص میں اداء کا فرض یا واجب ہونا ہے اوریہی مقصودِ شرعی ہے عرفِ شریعت اوراہل اسلام کے عرف میں اسی کو فرضیت سے جانتے ہیں اور فقہاء اسی سے بحث کرتے ہیں لیکن اصطلاحاً یہ وجوبِ اداء ہے جو خطابِ شارع پر موقوف ہے اوریہ اصل وجوب جو شرعی لطیف امر ہے اور مشائخ احناف جس کے قائل ہیں وہ اہل ایمان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص فضل وعنایت ہے کہ فرائض کے مطالبہ سے قبل ایسے امور مقرر کئے گئے جس کے پائے جانے پر مشیت الٰہی سے بندہ (جبراً) فرائض وواجبات کے وجوب (اور ان کی اداء) کا اہل بن جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ بالغ کی نفل عبادت نابالغ کی نفل نماز وغیرہ سے کامل، اعلیٰ اور واجب الاتمام ہوا کرتی ہے۔

اصل وجوب اور وجوب اداء کا مطلب

الوجوب نوعان احدہما اصل الوجوب وہو اشتغال الذمة بالواجب وانہ ثبت بالاسباب لا بالخطاب ولاتشترط القدرة لثبوتہ بل ثبت جبرا من اللّٰہ تعالٰی شاء العبد او ابی. والثانی وجوب الاداء وہو اسقاط مافی الذمة وتفریغہا من الواجب وانہ ثبت بالخطاب وتشترط لہ القدرة علی فہم الخطاب وعلی اداء ماتناولہ الخطاب. (بدائع:۲/۸۸)

وجوب کی دو قسمیں ہیں ایک اصل وجوب یعنی ذمہ کا مشغول بالواجب ہونا اور یہ اسباب سے ہوتا ہے نہ کہ خطاب سے اوراس کے ثبوت کے لیے قدرت شرط نہیں ہے بلکہ من جانب اللہ جبراً ثابت ہوجاتا ہے بندہ چاہے یا نہ چاہے۔ دوسری وجوب اداء ہے ذمہ کے فریضہ کو ساقط کرنا یعنی واجب سے سبکدوش ہونا یہ خطاب سے ہوتا ہے اور اس کے لیے قدرت علی فہم الخطاب اور قدرت علی الاداء دونوں شرط ہے۔

تنبیہ: ثبت بالاسباب لابالخطاب میں اسباب سے مراد وہ امور ہیں جو درحقیقت مکلف کی صفات ہیں جنہیں شرائطِ وجوب سے تعبیر کرتے ہیں ان صفات میں بعض علت، بعض شرط اور بعض سبب ہے چونکہ سبب کا مفہوم وسیع وعام ہے اس لیے توسعاً صفات کے لیے اسباب کالفظ استعمال کیا گیا ہے اس لفظ ”سبب“ سے محض وہ شئی مراد نہیں ہے جسے تعدد و تکرار کے لیے شرعاً سبب قرار دیاگیا ہے۔ کما ستقف بعد ان شاء اللّٰہ.

اصل وجوب کا مدار اوراس کا محل

اہلیت وجوب یا اصل وجوب جو وجوبِ اداء سے منفک اور مقدم ہوتا ہے اس کا مدار جن اشیاء پر ہے وہ سب صفاتِ مکلف ہیں خواہ صفت دائمی و مستقل ہو یا وقتی وعارضی۔ اور خواہ وہ وصف اختیاری ہو کہ غیراختیاری جیسے عقل، بلوغ، اسلام، حریت، ملکیت، استطاعت وغیرہ۔ ان صفات کے تحقق پر من جانب اللہ بندہ کا ذمہ مشغول بالواجب ہوجاتا ہے یہ وجوب غیر اختیاری ہے بندہ کی خواہش پرموقوف نہیں ہے۔ اس اصل وجوب کا محل بلا تردد ذمة المکلّف ہے۔

ایک وجوب اختیاری ہے جو بندہ کے ارادے اور عمل سے وابستہ ہے یعنی کسی قربت کی نذر خواہ فعل منذور قربت بدنی ہو یا مالی۔ اور شروع فی العبادة اس سے بھی عبادت کی ادائیگی ذمہ میں لازم ہوجاتی ہے۔ اور نذر سے ناذر کا ذمہ مشغول بالواجب ہوجاتا ہے۔

اور اصل وجوب (غیراختیاری) میں تمام مومنین عالم مُستوِی الاقدام ہیں یعنی دنیا کے کسی بھی خطہ میں رہتے ہوں شمسی تغیرات یعنی طلوع، زوال، غروب وغیرہ فی نفسہ. اس کے لیے حاجز ومانع نہیں ہے۔

وجوب اداء اوراسکا محل

وجوبِ اداء میں وجوب اصالةً فعل (بمعنی المصدر) یعنی اداء کی صفت ہے اور بواسطہ فعل ذات یعنی محل فعل سے تعلق ہوتا ہے پس اداء کا جو محل ہوگا وجوب کا تعلق محل اداء سے بھی ہوگا چنانچہ صلوٰة (ارکان مخصوصہ) اور صوم یعنی امساکِ مخصوص دونوں کا مصدر و محل بدن وذاتِ مکلف ہے اس لیے مکلف ہی محل واجب ہے۔ اور زکوٰة میں مویشی میں مخصوص جانور اور دراہم و دنانیر میں فی نصاب ربع عشر کی ادائیگی کا وجوب ہوتا ہے اور یہ غیرمکلف ہے پس اداء کا محل مال ہے تو وجوبِ اداء کا متعلق بھی مال ہے۔ اور صدقة الفطر میں درحقیقت ”اغناء“ کا وجوب ہوتا ہے جس کا تعلق ذمہ مکلف سے ہے اس لیے صدقة الفطر میں روزہ نماز کی طرح وجوبِ اداء کا محل مکلف کی ذات ہے۔ اور قربانی میں جوکہ مالی عبادت ہے اصلاً تصدق بالمال واجب ہونا چاہئے مگرایام مخصوصہ میں خاص مصلحتوں کے پیش نظر بطور بدل اراقة الدم کو واجب قرار دیاگیا اور اراقة کا محل جانور ہے پس وجوب کا تعلق بواسطہ (اراقہ) مال یعنی جانور سے ہوا۔ لہٰذا یہ وجوب بواسطہٴ اراقة جانور کی صفت ہوگی جیسے صحت اداء میں صحت صفت ہے اداء کی نہ کہ مکلف کی البتہ اراقة الدم (نحر، ذبح) کا صدور کسی فاعل سے ہوگا جو مکلف یعنی من علیہ الاضحیہ ہوتا ہے یا اس کا وکیل و نائب۔

لان الوجوب فی صفات الفعل (بنایہ:۱۱/۴) لان الوجوب تتعلق بالاراقة (بدائع:۵/۶۶) (فتجب التضحیة) اسناد الوجوب الی الفعل اولٰی من اسنادہ الی العین کالاضحیة (شامی:۹/۴۵۴)

اصل وجوب اوراداء کے محل میں اتحاد و افتراق

اصل وجوب کا محل جیسا کہ گذرا ذمة المکلف ہے۔ بعدہ فعل واجب جس کی اداء اوقات مخصوصہ میں واجب ہوتی ہے اس کا صدور اور وقوع اگر مکلف کی ذات سے ہے یعنی ذاتِ مکلف ہی محل فعل بھی ہے تو اب محل وجوب اور محل اداء دونوں متحد ہوگئے جیسے نماز اور روزہ میں اور اگر فعل واجب کا محل مال ہے تو دونوں کا محل الگ ہوگیا۔ نفس وجوب کا محل ذمة المکلف اور اداء کا محل غیر مکلف جیسے زکوٰة اور قربانی میں۔ اسے ایک مثال سے سمجھئے: ناذر پر نذر کی وجہ سے جو وجوب آرہا ہے اس کا محل ذاتِ مکلف یعنی خود ناذر ہے اب اگر فعل منذور نماز، روزہ یا اعتکاف ہے تو اِن افعال کا محل بھی وہی ناذر ہے اوراگر صدقہ یا قربانی یا اس کے قبیل سے کوئی فعل ہے تواس کا محل غیرمکلف یعنی مال ہے۔ پہلی صورت میں محل اداء خود ناذر ہے اس لیے محل وجوب اور محل اداء ایک ہوگیا اور دوسری صورت میں محل اداء مال ہے پس دونوں علیحدہ ہوگئے۔

وقت کا اعتبار اداء کے لحاظ سے ہے کیونکہ فعل (حدوث) کے لیے زمان ضروری ہے والزمان جزء من مفہوم الفعل (مختصر المعانی) پس اوقاتِ معینہ میں جووجوب متحقق ہورہا ہے اس کا تعلق اداء اور محل اداء سے ہے لہٰذا اداء اورمحل اداء کے حق میں وقت کا اعتبار کیاجائے گا۔

واجباتِ مطلقہ وموقّتہ کی توضیح

وجوب سے مقصود اداء ہے اورادائے واجبات کے لیے عقلاً وقت کا ہونا ضروری ہے کمامر۔ پس باعتبارِ اداء فی الوقت واجبات کی دو قسمیں ہیں:

(۱) بعض واجبات کی ادائیگی وقت وجوب کے ساتھ مقید نہیں ہے یعنی شارع کی طرف سے وجوبِ اداء کے بعد ادائے واجب کسی وقت کے ساتھ اس طرح خاص نہیں کیاگیا ہے کہ اس وقت کے فوت ہونے سے مامور بہ کی ادائیگی قضاء کہلائے بلکہ موت سے قبل جب بھی مامور بہ کو انجام دیاجائے وہ ادا کہلائے گا قضاء نہیں۔ ایسے واجبات کو (اور وہ قرباتِ معقولہ ہیں) واجبات مطلقہ کہتے ہیں۔

لان الزکوٰة لایتعلق وجوبہا بوقت مخصوص بل جمیع العمر وقتہا فکان جمیع الاوقات وقتا لادائہا وکذلک صدقة الفطر لانہا تجب وجوبا موسّعا کالزکوٰة. (بدائع:۵/۶۳)

الامر نوعان مطلق عن الوقت ای احدہما امر مطلق غیرمقید بوقت یفوت بفوتہ کالزکوٰة وصدقة الفطر فانہا بعد وجود السبب ای ملک المال والرأس والشرط ای حولان الحول ویوم الفطر لایتقیدانِ بوقت یفوتان بفوتہ بل کلّما ادّی یکون اداءً لاقضاءً... ومقید بہ ای الثانی امر مقید بالوقت. (نورالانوار:۵۶) (قولہ بالوقت ای بوقت محدود بحیث لوفات الوقت فات الاداء. حاشیہٴ نور الانوار)

(۲) اور بعض واجبات جوکہ غیرمعقولہ ہیں شارع نے اس کی اداء کو وجوبِ اداء کے ساتھ وقت محدود میں (جس کی ابتداء وانتہاء متعین ہے) مقید کیاہے یعنی وقت مخصوص میں ہی اس کی ادائیگی اداء کہلائے گی وقت گذر جانے کے بعد مامور بہ کی ادائیگی قضاء کہلاتی ہے ان کو واجباتِ موقتہ کہتے ہیں۔ اصولیین نے پھر اس کی چارانواع بیان کی ہیں جن میں سے دو میں وقت سبب وجوب بھی ہے اور دو یعنی قضاء رمضان اورحج میں وقت سبب نہیں ہے۔

الواجب قسمان احدہما مطلق وہو الذی لم یقید طلب ایقاعہ بوقت محدود من العمر بحیث لایجوز قبلہ ویفوت بفواتہ وان کان واقعا فی وقتٍ لامحالةَ کالنذر المطلقة والکفارات والزکوٰة والعشر والخراج وادرج الحنفیة صدقة الفطر.

ثانیہما مقیّد بہ ای بوقت محدود یفوت الواجب بہ وہو ای الوقت المقید بہ الواجب بالاستقراء اقسام اربعة الاول یفضل الوقت عن الاداء ویسمّی عند الحنفیة ظرفاً اصطلاحا کوقت الصلاة المکتوبة بہا فانہ سبب محض علامة علی الوجوب. (تقریر وتحبیر:۲/۱۵۵)

ایقاظ

کتب اصولِ فقہ میں اس موقع پر واجبات موقتہ میں چار ہی انواع کو شمارکیاہے۔ قربانی کو نہ واجباتِ مطلقہ میں اورنہ ہی موقتہ میں ذکر کیاہے جبکہ قربانی بالیقین قربہٴ موقتہ ہے غالباً اس کی وجہ یہ ہے جیساکہ صاحب بدائع وغیرہ نے بیان کیا ہے کہ قربانی اصلاً مالی عبادت ہے جس میں تصدق واجب ہوتا ہے اور تصدق مقید بالوقت نہیں ہے لیکن ایام نحر میں اسکی امتیازی خصوصیات کے تحت اراقة الدم کو بطور بدل واجب قرار دیاگیا ہے اور اراقة قربت غیرمعقولہ ہے اس لیے اس کی اداء مقید بالوقت ہوگئی۔

وجوبِ اداء وقتِ معین کے ساتھ خاص ہے

جن واجبات میں تکرار ہے یعنی نماز، روزہ، زکوٰة، صدقة الفطر اور قربانی۔ ان سب میں وجوبِ اداء کو شارع نے وقت خاص کے ساتھ مربوط کیاہے یعنی خطاب الٰہی (جووجوبِ اداء کا سبب حقیقی ہے) بندوں کی طرف اوقاتِ مخصوصہ ہی میں متوجہ ہوتا ہے خواہ وقت ممتد ہو یا غیرممتد۔ اور اہل اصول نے بیان کیا ہے کہ نفس وجوب میں طلب فعل نہیں ہوتا بخلافِ وجوبِ اداء کے کہ اس میں اداء یعنی فعل کا مطالبہ ہوتا ہے جس کے لیے قدرت شرط ہے اور قدرت عقل و بلوغ سے ہے جو وجوبِ اداء کے شرائط میں سے ہے اور اہل علم یہ بھی جانتے ہیں کہ طلب فعل وقت ہی میں ہوتا ہے اس سے قبل نہیں اُسی کو عرف میں فرض یا واجب ہونا بولتے ہیں پس معلوم ہوا کہ وقت میں ہونے والا یہ وجوب اصطلاحاً وجوبِ اداء ہے لہٰذا وقت وجوب سے مراد کتب فقہ میں وجوبِ اداء کا وقت ہے چاہے اسے شرط سے تعبیر کیا ہو یا سبب سے یعنی جہاں وقت خاص کو سبب کہا گیا ہے تو اس سے وجوب اداء کا سبب مراد ہے۔ فالقدرة شرط لوجوب الاداء لالنفس الوجوب لان التکلیف ہو طلب ایقاع الفعل من العبد ونفس الوجوب لاطلب فیہ. (فتح الغفار،ص:۷۳)

فقہی عبارات سے استشہاد

زکوٰة: فرضت علی حر مسلم مکلف مالک النصاب... وشرط وجوب ادائہا (نورالایضاح:۱۵۳) وشرط کمال النصاب وسائمة فی طرفی الحول فی الابتداء للانعقاد وفی الانتہاء للوجوب. (ہدایہ)

ونصاب الزکوٰة قبل مضی الحول فانہ علة اسما لانہ وضع لوجوب الزکوٰة ویضاف الیہ الوجوب بلا واسطة ومعنیً لانہ موٴثر فی وجوب الزکوٰة اذا الغنا یوجب الاحسان وہو یحصل بالنصاب لاحکما لتأخر الوجوب الی حولان الحول. (نور الانوار:۱۲۲)

واما وجوب الاداء الموقوف علی مطالبة الشارع فہو یتحقق بعد حولان الحول (عمدة الرعایہ:۱/۲۴۸)

صدقة الفطر: تجب علی حر مسلم مالک النصاب او قیمتہ وان لم یحل علیہ الحول عند طلوع فجر یوم الفطر (نورالایضاح) قولہ عند طلوع: بیان لوقت وجوب الاداء (حاشیہٴ نورالایضاح:۱۶۱)

باب صدقة الفطر من اضافة الحکم لِشرط (درمختار) المراد بالحکم وجوب الصدقة لانہ الحکم الشرعی والمراد بالوجوب: وجوب الاداء (شامی) ووجوب الفطرة یتعلق بطلوع الفجر الثانی من یوم الفطر (قدوری:۵۱).

روزہ: وشرط وجوب ادائہ وہی ثلاثة الصحة والاقامة والخلو عن الحیض والنفاس فشہود جزء منہ سبب لکلہ ثم کل یوم سبب وجوب ادائہ (شامی:۳/۳۳۳)

نماز: وقد یجامع الشرط السبب مع اختلاف النسبة کوقت الصلاة فانہ شرط بالنسبة الی الاداء وسبب بالنسبة الی وجوب الاداء (تقریر و تحبیر:۲/۱۰۲)

قربانی: لان الوقت کما ہو شرط الوجوب فہو شرط جواز اقامة الواجب کوقت الصلاة (بدائع:۵/۷۳)

... ان الوجوب عند الاداء او فی آخر الوقت فاذا مات قبل الاداء مات قبل ان تجب علیہ کمن مات فی وقت الصلاة قبل ان یصلیہا انہ مات ولا صلاة علیہ. (بدائع:۵/۶۵)

قربانی کے اوقاتِ معینہ کو ظرفیت اصطلاحی (یعنی مامور بہ اداء کرنے کے بعد وقت کے فاضل بچ رہنے) میں نماز کے اوقات سے مشابہت ہے اسی وجہ سے وقت اضحیہ کی تشبیہ وقت صلاة سے مذکور ہے اور نماز کا وقت فرضیت اداء کے لیے سبب اور صحت اداء کے لیے شرط ہے کما مر.

(۲)  اصولی صریح عبارت سے استدلال

تقریر و تحبیر کی عبارت ابھی اوپر نماز کے تحت مذکور ہوئی۔ اصول الشاشی کی عبارت ملاحظہ فرمائیے: فسبب وجوب الصلاة الوقت بدلیل ان الخطاب باداء الصلاة لایتوجہ قبل دخول الوقت وانما یتوجہ بعد دخول الوقت والخطاب مثبت لوجوب الاداء ومعرف للعبد سبب الوجوب قبلہ الخ (صفحہ۹۹)

اور تکملہ فتح القدیر کی عبارت (۹/۵۰۷) بھی دیکھئے:

ووجہ ذلک ما تقرر فی علم الاصول من ان وجوب الاداء فی الموقّتات التی یفضل الوقت عن ادائہا کالصلاة ونحوہا انما یثبت آخر الوقت اذہنا یتوجہ الخطاب حقیقة لان فی ذلک الآن یأثم بالترک لاقبلہ حتی اذا مات فی الوقت لاشیٴ علیہ والاضحیة من ہاتیک الموقتات فتسقط بہلاک المال قبل مضی وقتہا ولاتسقط بہلاکہ بعد مضی وقتہا لتقرر سبب وجوب ادائہا.

یعنی وہ قربت موقتہ جسے اس کے وقت مخصوص میں اداء کرنے کے بعد وقت بچ رہتا ہے جیسے نماز اس کا وجوبِ اداء وقت معینہ کے جزء آخر میں ثابت ہوتا ہے یعنی شرائط وجوب کے پائے جانے سے ذمہ مشغول ہونے کے باوجود وقت وجوب کی ابتداء میں واجب اداء نہ کرنے سے ابھی گنہگار نہیں ہوگا کیونکہ خطاب الٰہی جووجوبِ اداء کا حقیقی سبب ہے وہ اداء سے متصل ہوتا ہے پس اگر وقت میں اداء سے قبل مرگیا تو اس کے ذمہ کچھ نہیں کیونکہ وجوبِ اداء حقیقتاً نہیں پایاگیا مگر جب وقت کا جزء آخر آگیا اور اداء نہیں کیا تو اب بہرحال خطاب متوجہ ہوجائے گا اور واجب اس کے ذمہ دَین بن جائے گا۔

یہی حال قربانی کے وقت کا ہے کہ وقت گذرنے سے قبل اگر مال ہلاک ہوگیا تو چونکہ غنا شرطِ وجوب (فی معنی العلة) ہے کما ستعلم۔ اس لیے فقر لاحق ہونے سے اصل وجوب ہی ختم ہوگیا فکیف یتوجہ الخطاب الیہ اور اگر وقت گذرگیا درانحالیکہ وہ غنی تھا اور قربانی نہیں کی تو اخیر وقت میں خطاب متوجہ ہوجانے سے اس کا وجوب موٴکد ہوگیا اور اب فقر لاحق ہونے کے باوجود ذمہ ساقط نہ ہوگا۔

(۳) قولِ محققین ماوراء النہر سے استدلال

شروع میں گذرچکا کہ اصل وجوب یا اہلیت وجوب بذات خود مقصود نہیں ہے ان الوجوب غیر مقصود بنفسہ. بلکہ واجب کی ادائیگی مقصود اصلی ہے اس لیے وجوب اداء ہی مطلوب ہے شاید اسی لیے عام مشائخ کے مقابلہ میں محققین وجوب کی ایک ہی نوع یعنی وجوبِ اداء کے قائل ہیں۔ مگر وجوبِ اداء کا اہل ان کے نزدیک وہی ہوگا جس میں اداء کی اہلیت پائی جائے (اور اہلیت اداء کے لیے اُن تمام امور کا مجتمع ہونا ضروری ہے جس کو عام فقہاء شرائط وجوب سے تعبیر کرتے ہیں)

قال اہل التحقیق من مشائخنا بماوراء النہر ان الوجوب فی الحقیقة نوع واحد وہو وجوب الاداء فکل من کان اہل الاداء کان من اہل الوجوب ومن لا فلا وہو اختیار استاذی الشیخ الاجل الزاہد علاوٴالدین رئیس اہل السنة محمد بن احمد السمرقندی لان الوجوب المعقول ہووجوب الفعل کوجوب الصوم والصلاة وسائر العبادات. (بدائع:۲/۸۸)

اور وجوبِ اداء کا سبب حقیقی خطاب الٰہی ہے اور خطاب اوقات مخصوصہ میں متوجہ ہوتا ہے کما سیأتی مستوفی پس وقت کو سبب وجوب کہے جانے سے فقہاء کے کلام میں وجوب اداء کی ہی سببیت کو بیان کرنا ہے۔

(۴) انتقالِ سببیت سے استدلال

فقہاء کہتے ہیں کہ وقت سببِ وجوب ہے پھر معاً یہ بھی کہتے ہیں کہ وجوب کا اول وقت میں ہونا ضروری نہیں اور ابتداءً پورے وقت کو بھی سبب قرار نہیں دیتے کیونکہ وقت کے جزء اول کو بالتعیین سبب کہیں تو واجب کی ادائیگی کو جزء آخر میں اداء کہنا مشکل ہوگا اور اگر پورے وقت کو سبب کہا جائے تو پھر فریضہ کی ادائیگی وقت کے بعد قضاء کہلائے گی۔ نیز صلاة الفجر کا طلوعِ شمس سے فاسد ہوجانا اور عصر الیوم کا غروب کے وقت بھی جائز ہوجانا دلیل ہے کہ فجر کی نماز کا وجوب کامل تھا اور نمازِ عصر کا وجوب تغیرشمس کے بعد ناقص ہوتا ہے اس لیے ائمہ فقہ نے فیصلہ کیا کہ سبب وجوب درحقیقت وقت مخصوص کا وہ جزء سابق ہوگا جو اداء سے متصل ہے اگرچہ سببیت کی صلاحیت پورے وقت میں ہے تاکہ وقت کے کسی بھی حصہ میں مامور بہ کی ادائیگی اداء کہلائے اور اداء فی الوقت نہ ہونے کی صورت میں پورے وقت کو قضاء کے حق میں سبب قرار دیاگیا۔

وقد تقدم ان سبب الصلاة اوقاتہا لکن لایمکن ان یکون کل الوقت سببا لانہ لوکان کلّہ سببا لوقع الاداء بعدہ لوجوب تقدم السبب بجمیع اجزائہ علی المسبب فلا یکون اداءً ولیس دلیل یدل علی قدر معیّن منہ کالربع والخمس او غیرہما فوجب ان یجعل بعض منہ سببا واقل ما یصلح لذلک الجزء الذی لایتجزیٰ والجزء السابق لعدم ما یزاحمہ اولی فان اتصل بہ الاداء تعین لحصول المقصود وہو الاداء وان لم یتصل الی الجزء الذی یلیہ ثم وثم الی ان یضیق الوقت ولم یتقرر علی الجزء الماضی لانہ لوتقرر کانت الصلاة فی آخر الوقت قضاء ولیس کذلک لما سنذکر فکان الجزء الذی یلی الاداء ہو السبب او الجزء المضیّق اوکل الوقت ان لم یقع الاداء فیہ لان الانتقال من الکل الی الجزء کان لضرورة وقوع الاداء خارج الوقت علی تقدیر سببیّة الکل وقد زالت فیعود کل الوقت سبباً ثم الجزء الذی یتعین سببا تعتبر صفتہ من الصحة والفساد فان کان صحیحا بان لایکون موصوفا بالکراہة ولا منسوبا الی الشیطان کالظہر وجب المسبب کاملا فلا یتادّی ناقصاً وان کان فاسدا ای ناقصا بان یکون منسوبا الی الشیطان کالعصر یستأنف وقت الاحمرار وجب الفرض فیہ ناقصا فیجوز ان یتادّی ناقصا لانہ ادّاہ کما وجب بخلاف غیرہا من الصلوات الواجبة باسباب کاملة فانہا لاتقضیٰ فی ہذہ الاوقات لان ماوجب کاملا لایتأدّی ناقصا وقد ذکرنا ذلک فی الانوار والتقریر مستوفیٰ بعون اللّٰہ وتائیدہ. (عنایہ شرح ہدایہ فی ہامش فتح القدیر:۱/۲۳۴)

والاصل فی ہذا ... ثم کذلک ینتقل الی ان یتضیّق الوقت عند زفر والی آخر جزء من اجزاء الوقت عندنا فتعین السببیة فیہ لما یلی الشرع فی الاداء اذ لم یبق بعدہ مایحتمل انتقال السببیة الیہ فیعتبر حالہ فی الاسلام والبلوغ والعقل والجنون والسفر والاقامة والحیض والطہر عند ذلک الجزء ویعتبر صفة ذلک الجزء فان کان ذلک الجزء صحیحا کما فی الفجر وجب کاملا... وان کان ذلک الجزء فاسدا کما فی العصر... وجب ناقصاً فیتادّی بصفة النقصان واما اذا خلا الوقت عن الاداء فالوجوب یضاف الی کل الوقت الخ (حسامی:۳۳ وکذا فی الطحطاوی:۱۷۴)

پس وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ سببیت میں انتقال اورانتقالِ سبب کی وجہ سے وقت کی صفت عارضی کا اثر وجوب میں ظاہر ہونا یعنی وقت صحیح ہو تو وجوب کامل اور وقت فاسد ہوتو وجوب ناقص۔ نیز مکلف کی حالتِ سفر وحضر کا بھی وجوب پراثر انداز ہونا یہ سب واضح ثبوت ہے کہ وقت وجوب اداء کا سبب ہے کیونکہ اصل وجوب مطلق ہے اس میں اتمام، قصر اور کامل وناقص کا فرق نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ نفس وجوب متحقق ہونے کے باوجود مثلاً اوّل وقت میں کوئی کافر مسلمان ہوا تو عقل وبلوغ اور اسلام کی وجہ سے اب وہ نماز، روزہ کا مکلف ہوگیا یعنی اس کا ذمہ مشغول بالواجب ہوگیا مگر بالتعیین سبب وجوب فقہاء کہتے ہیں کہ وہی وقت ہوگا جو اداء سے متصل ہے۔

ایام نحر جو قربانی کا سبب وجوب ہے اسکا بھی یہی حال ہے یعنی اس میں بھی انتقالِ سببیت ہے۔

والاصل ان ما وجب فی جزء من الوقت غیر عین یتعین الجزء الذی ادی فیہ الوجوب او آخر الوقت کما فی الصلاة وہو الصحیح من الاقاویل علی ما عرف فی اصول الفقہ. (بدائع:۵/۶۵ کتاب الاضحیة)

(۵)  مسئلہٴ بلغاریہ سے استدلال

اہل بلغاریہ کے سلسلہ میں ایک طرف فقہاء کا یہ قول ہے:

ومن لم یجد وقتہما ای العشاء والوتر لم یجبا علیہ بان کان فی بلد بلغار وباقصیٰ المشرق یطلع فیہا الفجر قبل مغیب الشفق فی اقصر لیالی السنة لعدم السبب الوقت. (مراقی:۱۷۸)

دوسری جانب فقہاء یہ بھی فرماتے ہیں۔

وفاقد وقتیہما (کبلغار فان فیہا یطلع الفجر قبل غروب الشفق) مکلف بہما. (درمختار)

اس تعارض کو دفع کرتے ہوئے علامہ شامی نے یہ لکھا ہے۔

اذا علمت ذلک ظہر لک ان من قال بالوجوب یقول بہ علی سبیل القضاء لا الاداء... فیتعین ان یحمل کلام البرہان الکبیر علی وجوب القضاء کما یقول بہ الحلوانی.

یعنی جولوگ وجوب کے قائل ہیں وہ وجوب قضاء ہے نہ کہ وجوب اداء۔ کیونکہ سبب وجوب یعنی وقت کے نہ ہونے سے مطلق وقت کا عدم نہیں بلکہ وقت خاص کا فقدان ہے اور اداء وقت خاص ہی کا فریضہ ہے اوراداء پر جب قدرت نہیں تو وجوب اداء بھی نہ ہوگا کیونکہ وجوب اداء کے لیے قدرت علی الاداء شرط ہے یہی وجہ ہے کہ اداء (کے وجوب) کا کوئی قائل نہیں ہے۔

ثم انہ لا ینوی القضاء فی الصحیح لفقد وقت الاداء وفیہ نظر لان الوجوب بدون السبب لایعقل وکذا اذا لم ینو القضاء یکون اداء ضرورة وہو (ای الاداء) فرض الوقت ولم یقل بہ احد اذ لم یبق وقت العشاء بعد طلوع الفجر اجماعاً. (تبیین الحقائق للزیلعی:۱/۲۲۰)

پس یقین کے ساتھ معلوم ہوا کہ وقت خاص جس کو وجوب کا سبب کہا گیا ہے وہ وجوب اداء کا سبب ہے ورنہ اصلاً نماز ساقط ہوجاتی وجوب قضاء کا بھی کوئی قائل نہ رہتا۔ فافہم (یہاں یہ بحث الگ ہے کہ اہل بلغاریہ عشاء اور وتر پڑھتے وقت کیا نیت کریں گے یہ ہمارے موضوع سے خارج ہے)

(۶)  تکرارِ سبب سے استدلال

سبب کے تکرار سے حکم یعنی مسبب کا تکرار اور اس کے عدم سے حکم کا عدم تکرار ایک اصولی قاعدہ ہے۔ ولا یلزم تکرار المشروط بتکرر الشرط لان وجود الشرط لایقتضی وجود المشروط بخلاف السبب فانہ یقتضی وجود المسبب. (تلویح:۴۲۲) وقد علم ان السبب اذا لم یتکرر لاتکرر المسبب (بنایہ:۴/۶)

پس جب نماز، روزہ اور قربانی کے لیے وقت کو سبب قرار دیاگیا ہے تو لامحالہ وقت کے تکرار سے فرائض میں تکرار و تجدد ہوتا رہتا ہے یہاں تک تو مسلّم ہے مگر اِس سبب وجوب کے لفظ سے نئے موقِف کے قائلین نفس وجوب (اصل وجوب) مراد لے رہے ہیں اور بندہ کہتا ہے کہ اس سے مراد وجوب اداء ہے جیساکہ ابتک کے دلائل سے معلوم ہوا۔ چنانچہ علامہ ابن نجیم مصری کی صریح عبارت دیکھئے۔

ان تکرار وجوب الاداء لایکون الا بتکرار السبب (فتح الغفار بشرح المنار:۴۶)

ان سب دلائل سے واضح ہوگیا کہ وقت سبب وجوب اداء ہے۔ لہٰذا کتب فقہ میں جہاں کہیں وقت سے قبل وجوب کی نفی مذکور ہے وہ وجوبِ اداء کی نفی ہے۔ فافہم

وقت کی سببیت سے مراد وجوب اداء کا سبب ہے یہ اظہرمن الشمس ہوجائے اس کے لیے احکام کے تعدد وتکرار کی بحث بھی نہایت ہی اہم ہے اس سے پہلے احکام وضعیہ کے متعلق کچھ وضاحتی جملے پیش کئے جاتے ہیں۔

حکم تکلیفی و حکم وضعی کا فرق

خطابِ شارع کے ذریعہ بندوں سے فعل یا ترک (کف) کا جو مطالبہ فرض وسنت، حرمت وکراہت،اوراباحت کے درجہ میں کیاجاتا ہے یہ حکم تکلیفی کہلاتا ہے اور خطاب کو خطابِ تکلیف کہتے ہیں اور اُسی خطاب کے ذریعہ شارع نے حکم شرعی کو کسی وصف یا ظرف کے ساتھ وجوب، تحقق یا منع کی حیثیت سے مربوط کیا ہے یہ حکم وضعی کہلاتا ہے اور خطاب کو خطاب وضع کہتے ہیں۔

بالفاظ دیگر انسان کے افعال و اعمال پر شارع کی طرف سے فرض، حرام، مسنون، مکروہ اور مباح کا جو حکم لگایا گیا ہے یہ حکم شرعی تکلیفی ہے اور اسی حکم تکلیفی کو جن اسباب و شروط یا موانع کے ساتھ وابستہ کیا ہے اِس ربط بین الامرین کو وضع کہتے ہیں اور امورِ متعلقہ کو احکامِ وضعیہ کہتے ہیں۔

شیخ محمد ابوزہرہ مصری سبب کے ماتحت لکھتے ہیں:

السبب عند جمہور الفقہاء ہو الامر الظاہر المضبوط الذی جعلہ الشارع امارة لوجود الحکم وبمقتضیٰ ہذا التعریف تثبت حقیقتان.

احدیٰہما ان السبب لاینعقد سببا الا بجعل الشارع لہ سببا وذلک ان الاحکام التکلیفیة ہی تکلیف من اللّٰہ تعالیٰ والمکلِّف ہو اللّٰہ تعالیٰ واذا کان المکلِّف ہو الشارع فہو الذی یجعل الاسباب التی ترتبط بہا الاحکام اسبابا... الحقیقة الثانیة ہی ان الاسباب لیست موٴثرة فی وجود الاحکام التکلیفیة بل ہی امارة بظہورہا ووجودہا. (دیکھئے اصول الفقہ لمحمد ابی زہرہ:۵۵)

احکام وضعیہ کی مختصر تعریف

السبب: ہو المفضی الی الحکم من غیر تاثیر. (بحر) حکم کی طرف پہنچانے والے امرکو سبب کہتے ہیں وہ حکم میں نہ موٴثر ہوتا ہے اور نہ حکم اس پر موقوف ہوتا ہے اگر حکم اس پر موقوف ہوتو وہ سبب فی معنی الشرط ہے اور اگر حکم کا مقتضی اور موٴثر ہو تو وہ سبب فی معنی العلة ہے۔

العلة: ما یضاف الیہ وجوب الحکم ابتداءً. یعنی علّت وہ امر ہے جس کی طرف وجوبِ حکم کی نسبت بلاواسطہ ہوتی ہے یعنی وہ وصف جو حکم میں موٴثر اور اس کا موجب ہوتا ہے۔ نیز علّت کی متعدد قسمیں ہیں۔

الشرط: ہو الامر الذی یتوقف علیہ وجود الحکم. یعنی وہ امر جس پر حکم کا وجود اور تحقق موقوف ہوتا ہے۔ اس کی بھی چند قسمیں ہیں۔

العلامة: ہی ما یعرف بہ الوجود من غیر ان یتعلق بہ وجوب ولا وجود.

یعنی وہ شئے جس کے ذریعہ حکم کے وجود کی معرفت اور پہچان حاصل ہو فقط۔

حاصل یہ کہ علّت موجب ہے۔ شرط موجد ہے۔ اور سبب مفضی ہوتا ہے۔

(۱)    فائدہ: چونکہ وجوب ہی وجودِ حکم کی طرف پہنچاتا ہے اس لیے علّت کو سبب سے تعبیر کرنا قابل اشکال نہیں ہے والوجوب ہو المفضی الی الوجود ظاہرًا (ہدایہ)

(۲)   فائدہ: وجودِ حکم کی نسبت سبب اور شرط کی طرف بھی ہوتی ہے۔

وجوبِ حکم کی اضافت سبب اور علّت کی طرف بھی ہوا کرتی ہے۔

ان السبب والشرط قد اشترکا فی ان کل منہما یضاف الیہ الوجود لاعلی وجہ التاثیر فخرج العلة ویتمیز السبب عن الشرط باضافة الوجوب الیہ ایضاً دون الشرط کما عرف فی الاصول (بحر:۲/۲۰۳)

(۳)   فائدہ: شرط کے تکرار سے مشروط کا تکرار لازم نہیں ہے بخلاف سبب کے کہ اس کے تکرار سے حکم کا تکرار اور عدم تکرار سے حکم کا عدم تکرار ضروری ہے و قد علم ان السبب اذا لم یتکرر لایتکررالمسبب (بنایہ:۴/۶)

ولایلزم تکرر المشروط بتکرر الشرط لان وجود الشرط لایقتضی وجود المشروط بخلاف السبب فانہ یقتضی وجود المسبب (تلویح:۴۲۲)

تعدد و تکرار کی بحث

احناف کے نزدیک یہ اصول طے شدہ ہے ان الامر لایقتضی التکرار ولا یحتملہ کہ امر بالذات نہ مقتضیٴ تکرار ہے اور نہ محتمل تکرار۔ دوسری طرف خطاب الٰہی جس پر صیغہٴ امر دال ہے وہ موجود علی الدوام ہے اور بندوں کے احساس سے غائب و پوشیدہ ہے پس ضروری ہوا کہ عبادت بدنی ومالی کی ادائیگی کو کسی ایسے امر کے ساتھ مربوط کیا جائے جس میں تکرار پایا جاتا ہو تاکہ اس کے تکرار سے یہ سمجھا جائے کہ خطاب الٰہی گویا از سر نو بندوں کی طرف متوجہ ہورہا ہے۔

وما تکرر من العبادات فباسبابہا لابالاوامر جواب سوال یرد علینا وہو ان الامر اذا لم یقتض التکرار ولم یحتملہ فبای وجہٍ تتکرر العبادات مثل الصلاة والصیام وغیر ذلک فیقول ان ما تکرر من العبادات لیس بالاوامر بل بالاسباب لان تکرار السبب یدل علی تکرار المسبب (نورالانوار:۳۵)

قولہ لیس بالاوامر والا لاستغرقت العبادات الاوقات کلہا لدوام الامر(حاشیہ)

چنانچہ شارعِ حکیم کے کلامِ اضافی سے استدلال کرتے ہوئے ائمہٴ مجتہدین نے ملک نصاب کو وجوب زکوٰة کے لیے اور رأس موصوف بالولایة والموٴنة کو وجوبِ صدقہ کے لیے سبب قرار دیا کیونکہ ملکیت میں باعتبار نصاب کے اور موٴنت وولایت میں باعتبار رأس کے تعدد و تکرار پایا جاتا ہے اور جب ملک نصاب اور رأس یمونہ ویلی علیہ کو سبب قرار دیدیا تو وقت وجوبِ اداء کو شرط کہا گیا (اگرچہ وقت کے تکرار سے حکم میں تکرار بھی مسلّم ہے مگر دو چیزوں کا ایک نام تجویز کرنا غیرمناسب معلوم ہوا) اور نماز، روزہ اور قربانی میں اوقات و ایام مخصوصہ کو سبب قرار دیا کہ وقت میں تکرار کا ہونا مشاہد ویقینی ہے اور سبب وجوب کے تکرار سے وجوب اداء کا تکرار سابق مضمون میں مدلل کیا جاچکا ہے۔

اور حج زندگی میں فقط ایک مرتبہ ہے اس لیے حج کی اضافت بیت اللہ کی طرف کی گئی جو غیرمتکرر ہے اور استطاعت (قدرت علی الزاد والراحلہ) کو باوجودیکہ وجوبِ حج اس پر موقوف ہے یعنی نفس وجوب کی شرط ہے اور وجوب ہی چونکہ مفضی الی الاداء ہوتا ہے اس لیے استطاعت کو سبب کہا جاسکتا ہے مگر چونکہ اس میں تکرار کا بھی تحقق ہوتا ہے اس لیے سبب (بالمعنی الاصطلاحی) قرار نہیں دیا گیا۔

وفی الذخیرة وقد رتب اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ وجوب الحج علی الاستطاعة وترتیب الحکم علی الوصف یشعر بسببیّة ذلک الوصف لذلک الحکم کقولنا زنی فرجم، وسہا فسجد، وسرق فقطع، فتکون الاستطاعة سببا لوجوبہ. (حاشیہ چلپی علی التبیین:۲/۲۳۶)

غرض جس شئے کو سبب قرار دیا جارہا ہے اس میں تعدد وتکرار کا خاص معنی ملحوظ ہے اسی وجہ سے واجبات کی نسبت اسباب کی طرف ہوا کرتی ہے فالواجبات تضاف الی اسبابہا (مبسوط:۲/۴) قطع نظر اس سے کہ وہ سبب فی معنی العلة ہے یا سبب فی معنی الشرط اب فقہاء کا کلام ملاحظہ فرمائیے۔

(۱) اعلم ان الصلاة فرضت لاوقاتہا قال اللّٰہ تعالیٰ اقم الصلوٰة لدلوک الشمس ولہذا تکرر وجوبہا بتکرار الوقت وتودّی فی مواقیتہا (مبسوط:۱/۱۴۱)

(۲) وسبب الاول الشہر ولہذا یضاف الیہ ویتکرر بتکررہ (ہدایہ: ۱/۲۱۱ کتاب الصوم)

(۳) فشہود جزء منہ سبب لکلہ ثم کل یوم سبب وجوب ادائہ غایة الامر انہ تکرر سبب وجوب صوم الیوم باعتبار خصوصہ کما فی الفتح (شامی:۳/۳۳۳)

(۴) ولان سببہ البیت وانہ لایتعدد فلا یتکرر الوجوب (ہدایہ:۲۳۲)

(۵) وقد علم ان السبب اذا لم یتکرر لایتکرر المسبب وانما کان سببہ البیت لاضافتہ الیہ یقال حج البیت والاضافة دلیل السببیة (بنایہ:۴/۶)

(۶) وسبب وجوب الحج ما اشار الیہ اللّٰہ تعالیٰ فی قولہ وللّٰہ علی الناس حج البیت فالواجبات تضاف الی اسبابہا ولہذا لایجب فی العمر الا مرة واحدة لان سببہ وہو البیت غیر متکرر والاصل فیہ حدیث الاقرع بن حابس.... والوقت فیہ شرط الاداء ولیس بسبب ولہذا لایتکرر بتکرر الوقت (مبسوط:۲/۴)

(۷) الاضافة ای اضافة الصدقة الی الفطر باعتبار انہ وقتہ ای وقت الوجوب فکانت اضافتہ مجازیة وہذا یتعدد بتعدد الرأس مع اتحاد الیوم ای لاجل تعدد الصدقة یتعدد الرأس ان لم یتعدد الفطر فعلم ان الرأس ہو السبب فی الیوم (بنایہ:۳/۵۷۲)

(۸)... ولانہ یتضاعف بتضاعف الروٴس فعلم ان السبب ہو الرأس وانما یعمل فی وقت مخصوص وہو وقت الفطر ولہذا یضاف الیہ فیقال صدقة الفطر والاضافة فی الاصل وان کان الی السبب فقد یضاف الی الشرط مجازا فان الاضافة تحتمل الاستعارة فاما التضاعف بتضاعف الروٴس لایحتمل الاستعارة (مبسوط:۲/۱۰۱)

(۹) النصاب انما یکون سببا باعتبار صفة النماء فان الواجب جزء من فضل المال قال اللّٰہ تعالیٰ یسئلونک ماذا ینفقون قل العفو ای الفضل فصار السبب النصاب النامی ولہذا یضاف الی النصاب والی السائمة یقال زکوٰة السائمة وزکوٰة التجارة والدلیل علیہ ان الواجب یتضاعف بتضاعف النصاب فان قیل الزکوٰة تتکرر فی النصاب الواحد بتکرر الحول ثم الحول شرط ولیس بسبب الخ. (دیکھئے مبسوط:۲/۱۵۰)

پس اگر نصاب اور رأس کے بجائے وقت کو سبب قرار دیا جاتا تو تکرارِ وقت سے وجوب ضرور مکرر ہوتا لیکن متعدد وجوب نہ ہوتا۔ اور اگرایامِ حج سے وجوبِ اداء کا تعلق ہوتا تو ہر سال حج کرنا ضروری ہوجاتا جیسے قربانی۔

اما حدیث الاقرع بن حابس رضى الله تعالى عنه فہو ما روی ابوہریرة رضي الله تعالى عنه ... فقال الاقرع بن حابس رضي الله تعالى عنه أکلّ عام یا رسول اللّٰہ فسکت حتی قالہا ثلثا فقال لوقلتُ نعم لتقرر الوجوب کل عام علی ماہو المستفاد من الامر قلنا لابل معناہ لصار الوقت سببا لانہ علیہ الصلاة والسلام کان صاحب الشرع والیہ نصب الشرع (تلویح:۴۲۱) اور جب وقت کو سبب وجوب قرار دیا جاتا تو وجوب اداء مختص بالوقت ہوکر متکرر ہوتا۔

قربانی کے سبب وجوب کے بارے میں فقہاء کا اختلاف اور بالآخر وقت کی سببیت پر سب کا متفق ہونا سببیت کے خاص معنی کے لحاظ سے ہے۔ اور اِس معنی کے اعتبار سے وجوبِ اضحیہ کا سبب نہ غنا ویسار ہے اور نہ ہی رأس یمونہ ویلی علیہ ہے۔ ورنہ متعدد قربانی واجب ہوتی جیسے زکوٰة و صدقةالفطر۔ البتہ ایام نحر کی آمد سے وجوب مکرر ہوتا رہتا ہے اس لیے وجوب اداء یعنی وجوب اضحیہ کا سبب وقت کو قرار دیاگیا ہے۔

ان سبب وجوب الاضحیة الوقت وہو ایام النحر والغنیٰ شرط الوجوب... الا یری انہ لایقال اضحیة المال ولا مال الاضحیة فلا یکون المال سببا (تکلمة فتح القدیر)

ولان سبب الوجوب ہناک رأس یمونہ ویلی علیہ وقد وجد فی الولد الصغیر ولیس السبب الرأس ہہنا الا یری انہ یجب بدونہ وکذا لایجب بسبب العبد (بدائع:۵/۶۵ کتاب الاضحیة)

واعلم ان عبارة البعض تفید ترجیح کون السبب ہو الرأس کصاحب الکافی حیث قال وسببہا الرأس کما فی صدقة الفطر وقیل الیوم وعبارة الدر تفید عکس ذلک. ومنہم من جزم بان السبب ہو الیوم قال للاضافة لقولہم یوم الاضحیٰ ولتکررہا بتکررہ (فتح المعین علی شرح الکنز لملا مسکین:۳/۳۷۶)

(۱۰) ثم ہہنا تکرر وجوب الاضحیة بتکرر الوقت ظاہر (تکلمہ فتح القدیر:۹/۵۰۶)

یہی وجہ ہے کہ مولانا عبدالحئی لکھنوی رحمة الله عليه نے وجوب صدقة الفطر میں رأس کے لیے سبب کا لفظ استعمال کیا اور قربانی میں مال کے لیے نہیں کیا۔

قلنا سبب وجوب الفطرة رأس ای نفس یمونہ ای یتولیہ ویکفلہ فیجب الصدقة علی الرأس... ولکن الاضحیة علی المال فان لم یکن لہ مال لایجب علیہ فافہم (عمدة الرعایہ:۴/۳۸)

لیکن قربانی کے وجوب فی الذمہ کی علّت بہرحال غنا ویسار ہے اس میں فقہاء کا کوئی اختلاف نہیں ہے (کما ستعلم ان شاء اللّٰہ) اس لحاظ سے اگر کسی فقیہ کے کلام میں بسبب الغنا کا لفظ آیا ہے تو وہ سبب فی معنی العلة ہے۔ (دیکھئے: تبیین الحقائق:۶/۴۷۸)

الحاصل وقت کو سبب قرار دینا تکرارِ وجوبِ اداء کے لیے ہے۔

رفع الارتیاب من سببیّة الوقت للموقّتات

سابق تحریر سے یہ تین چیزیں بالکل محقق اور مدلل ہوگئیں: (۱) وجوبِ اداء مختص ہے اوقات معینہ کے ساتھ (۲) سبب کے تکرار و تعدد سے وجوب مکرر ہوتا ہے (۳) اور اصل وجوب صفات پر موقوف ہے نہ کہ اوقات پر۔

اور جب فقہاء کے نزدیک یہ امور مسلّم ہیں تو پھر قربانی کے سلسلہ میں کراچی، مراد آباد وغیرہ کے فتاویٰ ائمہ فقہ کے نقل کے خلاف کیونکر ہوگئے۔ بات دراصل یہ ہے کہ ایک طرف نفس وجوب میں مکلف کو دیکھا جائے گااور نفس وجوب کے بعد محل اداء کا اعتبار ہوتا ہے یہ دونوں چیزیں مسلم ہیں دوسری طرف فقہاء نے وقت کو سبب وجوب قرار دیا ہے اور نفس وجوب سے وقت وجوب میں بحث کی ہے اور زکوٰة میں سبب وجوب سے ہی نفس وجوب متحقق ہوتا ہے پس نئے موقف کے قائلین کی نظر فقہاء کے کلام میں وقت کے لیے سبب اور سبب وجوب کے لفظ پر مرکوز ہوگئی اور وجوب سے نفس وجوب کی مراد ذہن نشیں کرلی گئی اور نفس وجوب کا مطلب اشتغال الذمہ بالواجب مشائخ نے بیان کیا ہے پس وقت کو موٴثر فی الوجوب تسلیم کرلیاگیا۔ اس مفروضہ پر یہ نتیجہ نکل آیا کہ وقت سے قبل ذمہ مشغول بالواجب ہوگا ہی نہیں لیکن ان مقدمات میں اگر غور کرلیا جاتا کہ وقت کی سببیت سبب محض ہے یا سبب فی معنی العلة یا سبب فی معنی الشرط۔ اور وجوب سے وجوب اداء مراد ہے یا صرف نفس وجوب۔اور نفس وجوب کا مطلب آیا بس وہی ہے جو عام مشائخ نے بیان کیاہے؟ اوراگریہی ہے تو مطلق وقت مراد ہے یا وقتِ خاص تو لغزش اور خطاء واقع نہ ہوتی مگر ماشاء اللّٰہ کان ومالم یشا لم یکن.

اس لیے راقم نے موضوع کے مالہ وماعلیہ کی تحقیق کی اوراس سلسلہ میں فقہاء کے مختلف کلام یکجا کرنے سے ایک قسم کا تعارض ظاہر ہوا جسے دفع کیا گیا تاکہ حقیقت آشکارا ہوجائے اور فقہاء کا نظریہ مبرہن ہوکر سامنے آجائے۔

وجوبِ اداء کا سبب حقیقی خطابِ الٰہی ہے

یہ امر یقینی ہے کہ وجوب اداء کا سبب حقیقی خطاب الٰہی ہے یعنی طلب ایقاعِ فعل خطاب الٰہی کے ذریعہ ہوتاہے اسی کو خطابِ تکلیف کہتے ہیں یہ اقتضاءِ فعل یا طلبِ ایقاع اوقات مخصوصہ میں ہوتا ہے یعنی وقت مخصوص کی آمد پر ہی خطاب بندوں کی طرف متوجہ ہوگا اس سے قبل نہیں اب اگر وقت مخصوص ممتد ہے جیسے قرباتِ موقتہ میں تو اس کا جزء آخر توجہِ خطاب کے لیے متعین ہے اور صیغہٴ امر اسی پر دلالت کرتا ہے۔

وسببہا الاصلی خطاب اللّٰہ تعالیٰ ای سبب وجوب ادائہا (مراقی)

ویخرج حین تزول الشمس لان الخطاب یتوجہ بعدہ (ہدایہ، باب الاعتکاف،ص:۲۳۰)

واسبابہا اوقاتہا وتجب ای یفترض فعلہا باول الوقت وجوبا موسّعا فلا حرج حتی یضیق عن الاداء ویتوجہ الخطاب حتما (مراقی)

وسبب لزوم ادائہا ہذا ہو السبب الحقیقی توجہ الخطاب ای الخطاب المتوجہ الی المکلفین بالامر بالاداء یعنی قولہ تعالیٰ واٰتوا الزکوٰة وشرط افتراضہا حولان الحول (در مع الرد: ۳/۱۸۵)

ووجہ ما تقرر فی علم الاصول من ان وجوب الاداء فی الموقتات التی یفضل الوقت عن ادائہا کالصلاة ونحوہا انما یثبت آخر الوقت اذ ہنا یتوجہ الخطاب حقیقةً الخ کما مر (تکملہ فتح القدیر:۹/۵۰۸)

اور اسی خطاب الٰہی کو جو بندوں کے ادراک سے غائب اور مکلفین کو اس کا متوجہ ہونا معلوم نہیں ہے شارعِ حکیم کا وقت کے ساتھ مربوط کرنا یہ خطابِ وضع کہلاتا ہے پس وقت مخصوص کی آمد مُعرِّف اور علامت ہے خطاب الٰہی کے متوجہ ہونے کی لہٰذا وقت سبب محض ہے یعنی فقط مفضی الی الحکم ہے موٴثر فی الوجوب نہیں ہے۔ الاحکام الشرعیة تتعلق باسبابہا وذلک لان الوجوب غیب عنّا فلا بد من علامة یعرف العبد بہا وجوب الحکم وبہذا الاعتبار اضیف الاحکام الی الاسباب فسبب وجوب الصلاة الوقت بدلیل ان الخطاب باداء الصلاة لایتوجہ قبل دخول الوقت وانما یتوجہ بعد دخول الوقت والخطاب مُثْبِت لوجوب الاداء ومعرّف للعبد سبب الوجوب قبلہ (اصول الشاشی:۹۹)

وسببہ الجعلی الذی جعل علامة علی الوجوب الخفی الثابت فی نفس الامر (فتح القدیر:۱/۲۲۴)

السبب عند جمہور الفقہاء ہو الامر الظاہر المضبوط الذی جعلہ الشارع امارة لوجود الحکم.

الحقیقة الثانیة: ہی ان الاسباب لیست موٴثرة فی وجود الاحکام التکلیفیة بل ہی امارة لظہورہا ووجودہا (اصول الفقہ:۵۵)

نفس وجوب کا سبب حقیقی کیا ہے؟

نورالانوار وغیرہ کتبِ اصول میں ایک عبارت جو جدید موقِف کیلئے بظاہر مضبوط صریح دلیل بن سکتی ہے جیساکہ دارالعلوم کراچی کے طویل فتویٰ میں نئے موقِف کو موجَّہ کرنے کے لیے بطورِ دلیل پیش کی گئی ہے اس کی حقیقت کشائی ضروری ہے تاکہ اس پر اعتماد کا حال واضح ہوجائے۔

ان الوقت سبب لنفس الوجوب والامر ہو سبب لوجوب الاداء (نورالانوار)

وقت نفس وجوب کا سبب یعنی سبب ظاہری ہے اوراس کا سبب حقیقی ایجابِ قدیم ہے جیساکہ نورالانوار ہی کی دوسری عبارت یہ ہے:

ثم ہہنا شیئان نفس الوجوب ووجوب الاداء فنفس الوجوب سببہ الحقیقی ہو الایجاب القدیم وسببہ الظاہری الوقت اقیم مقامہ (نورالانوار)

فقہاء کی مختلف عبارتوں کی وجہ سے یہاں ایک سوال ہوتا ہے کہ کیا ایجابِ قدیم نفس وجوب کا سبب حقیقی ہے یا وجوبِ اداء کا۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ نفس وجوب کا سبب حقیقی آیا ایجابِ قدیم ہے جیسا کہ نورالانوار وغیرہ بعض کتب فقہ میں مصرح ہے یا سبب حقیقی تتابع و تواردِ نِعَم علی العباد ہے جیسے حاشیہ حسامی میں ہے۔

ثم ہہنا امران نفس الوجوب ووجوب الاداء فنفس الوجوب سببہ الحقیقی ہو تتابع النعم علی العباد من اللّٰہ تعالیٰ وسببہ الظاہری ہو الوقت اقیم مقامہ لتوارد النعم فیہ (حاشیہٴ حسامی:۱/۷۲)

یا سبب حقیقی اُن دونوں کے علاوہ کوئی اور شئی ہے جیساکہ صاحب بدائع نے اشارہ کیا ہے۔ کما سیجیٴ.

بہرحال اگر ایجابِ قدیم حقیقی سبب ہے تو وہ ازلی ہے اور تتابع نعم علی العباد ہے تو وہ غیر ازلی ہے اور خواہ کچھ بھی ہو مذکورہ عبارتوں سے معلوم ہوا کہ وقت سبب ظاہری ہے نفس وجوب کا۔

اب ایک طرف وقت کا نفس وجوب کا سبب ہونا مصرح۔ دوسری طرف وقت کا وجوبِ اداء کا سبب ہونا بھی یقینی اور قطعی ہے جس سے انکار کی گنجائش ہی نہیں۔ غرض یہ عقدہ ہے جس کا حل پیش کرنا ضروری ہے۔

پہلے سوالوں کا جواب یہ ہے کہ ایجابِ قدیم نفس وجوب کا نہیں بلکہ وجوبِ اداء کا ہی سبب حقیقی ہے کیونکہ ایجابِ قدیم اور خطابِ الٰہی درحقیقت دو الگ الگ شئی نہیں ہیں اس لیے کہ خطاب بواسطہٴ کلام ہوگا اور کلام اللہ کی صفت ذاتی ہے لہٰذا خطاب بھی قدیم ہوا اور خطاب الٰہی وجوبِ اداء کا سبب حقیقی ہے (کما حققنا) پس وقت کو ایجابِ قدیم کا سبب ظاہری قرار دینا دراصل وجوبِ اداء کا ہی سبب بتانا ہے۔

قولہ الایجاب القدیم ہکذا فی التلویح والحق خلاف ذلک فان الایجاب القدیم وہو خطاب اللّٰہ تعالیٰ المتعلق بافعال المکلفین وہو معنی تعلق الطلب بالفعل فہو سبب لوجوب الاداء لالنفس الوجوب فالسبب الحقیقی لنفس الوجوب اما النعم التی منحہا اللّٰہ تعالیٰ علی عبادہ کما قال البعض (حاشیہٴ نورالانوار:۵۷)

والظاہر ان السبب الحقیقی للوجوب النعم فی الوقت کما صرحوا بہ اما الایجاب القدیم فہو سبب وجوب الاداء وہو خطاب اللّٰہ تعالیٰ المتعلق بفعل المکلف وہو معنی تعلق الطلب بالفعل (فتح الغفّار بشرح المنار:۸۱)

اوراب عقدہ کا حل ملاحظہ فرمائیے:

(پہلا حل) نفس وجوب اور وجوبِ اداء دو الگ الگ چیز نہیں بلکہ مامور بہ کے دو اعتبارات ہیں ایک اعتبار سے نفس وجوب اور دوسرے اعتبار سے وجوبِ اداء۔ کیونکہ لفظ ”اداء“ جو وجوبِ اداء میں مضاف الیہ ہے وہ تین معنوں میں مستعمل ہوتا ہے (۱) اداء بمعنی المصدر ای الاتیان بالشیء یعنی ایقاعہ (۲) حاصل بالمصدر ای الحالة المخصوصة او الفعل المخصوص (۳) اداء ای ما یقابل القضاء. (فتح الغفار)

پس وجوب اداء کہئے یا وجوبِ صلاة لفظ کا فرق ہے مصداق ایک ہے اس لیے کہ صوم وصلاة ہی وہ فعل مخصوص ہے جس کا مطالبہ وقت میں خطاب الٰہی کے ذریعہ ہوتا ہے جیسا کہ مشائخ ماوراء النہر کا قول صاحب بدائع نے نقل کیا ہے۔

لان الوجوب المعقول ہو وجوب الفعل کوجوب الصوم والصلاة وسائر العبادات (بدائع)

لہٰذا نفس وجوب سے عین وجوب مراد ہے۔

والحاصل ان الحالة المخصوصة تتصف بنفس الوجوب نظرا الی لزوم وقوعہا وتتصف ایضاً بوجوب الاداء نظرا الی

لزوم ایقاعہا فالموصوف بہما واحد بالاعتبارین. (فتح الغفار:۴۹)

نفس وجوب کا سبب ظاہری مطلق وقت ہے

(دوسرا حل) چونکہ عام مشائخ کے نزدیک نفس وجوب وجوبِ اداء سے منفک ایک قسم ہے اور وجوبِ اداء سے زماناً ورتبةً مقدم ہوتا ہے اس لیے عقدہ کا حل اب دوسرا ہے۔اور یہ متعین ہے ان شاء اللہ۔ کہ نفس وجوب کا سبب ظاہری مطلق وقت ہے اور وجوبِ اداء کا سبب وقت خاص ہے اس کے متعدد دلائل ہیں۔

کیونکہ ایجابِ قدیم کو اگر نفس وجوب کاسبب حقیقی کہیں تو یہ ایجاب فقط نماز کے لیے تو نہیں ہے کہ وقت کو اس کا سبب ظاہری قررا دیدیں بلکہ تمام عبادتوں کے لیے ہے اس لیے کہ وہ ازلی ہے اس میں بدنی ومالی، یومی، شہری اور سنوی عبادتوں کا کوئی فرق نہیں ہے۔ نیز اس میں تقدیم و تاخیر بھی نہیں ہے یہ سب فرق حادث اورغیر ازلی ہے۔

اور اگر تتابع و تواردِ نعم علی العباد کو نفس وجوب کا سبب حقیقی مانیں اور یہی راجح بھی ہے تو یہ تتابع و توارد اگرچہ غیرازلی ہے مگر ہر لمحہ من جانب اللہ بندوں پرمبذول ہے۔ شمسی تغیرات مانع نہیں ہے اور سبب حقیقی جب بلا امتیاز تمام بندوں کے حق میں عام ہے تو حکمت کا تقاضہ ہے کہ سبب ظاہری بھی عام ہو اس لیے کہ اقالیم دنیا میں بعض ایسے بھی علاقے ہیں جہاں وقت خاص للعشاء ہوتا ہی نہیں اور کہیں چھ ماہ دن ہے تو چھ ماہ رات ہے۔ بہرحال تمام مکلفین عالم اس نفس وجوب (جبری وجوب) میں مستوی الاقدام ہیں پس جب بھی شرائط تکلیف یعنی شرائط اہلیت پائی جائیں گی ذمہ مشغول بالواجب ہوجائے گا۔

اور وجوبِ اداء جس کا سبب حقیقی خطاب الٰہی ہے اور وہ موجود علی الدوام ہے اس کا مقتضی یہ تھا کہ بندہ ہمہ وقت اس کی بندگی میں مشغول رہتا کوئی لمحہ اس سے فارغ نہ رہتا ظاہر ہے اس سے نظامِ عالَم مختل وفاسد اور بندہ حرج بیّن میں مبتلا ہوجاتا جو لایکلف اللّٰہ نفساً الا وسعہا وغیرہ آیات کے خلاف ہے اس لیے تیسیراً علی الناس وفضلاً من اللّٰہ ورحمةً علی العباد اوقاتِ مخصوصہ میں (جس میں فیضانِ الٰہی وعنایت ربّانی متوجہ ہوتی ہے) واجب کی ادائیگی کو کافی سمجھ لیا گیا اور شارع نے ان ہی اوقات کو توجہِ خطاب کا معرِّف وسبب مقرر فرمایا ہے۔

(پہلا استدلال) والمراد بالسبب ان لہذا الوقت تاثیراً للمأمور بہ وان کان الموٴثر الحقیقی فی کل شیٴ ہو اللّٰہ تعالیٰ لکن یضاف الوجوب فی الظاہر الی الوقت لان فی کل لمحة وصول نعمة من اللّٰہ تعالیٰ الی جانب العبد وہو یقتضی الشکر فی کل ساعة وانما خص ہذہ الاوقات المعینة بالعبادات لعظمتہا وتجدد النعم فیہا ولئلا یفضی الی الحرج فی تحصیل المعاش ان استغرق الوقت العبادة... کوقت الصلاة الخ (نور الانوار:۳۵)

لان وجوبہا فی الوقت اما لحق العبودیة او لحق الشکر اولتکفیر الخطایا لان العبادات والقربات انما تجب لہذہ المعانی وہذا لایوجب الاختصاص بوقت دون وقت فکان الاصل فیہا ان تکون واجبة فی جمیع الاوقات وعلی الدوام بالقدر الممکن الا ان الاداء فی السنة مرة واحدة فی وقت مخصوص اقیم مقام الاداء فی جمیع السنة تیسیرا علی العباد وفضلا من اللّٰہ عز وجل ورحمةً کما اقیم شہر فی السنة مقام جمیع السنة واقیم خمس صلوات فی یوم ولیلة مقام الصلاة آناء اللیل وآناء النہار (بدائع:۵/۶۷)

پس جہاں وقت کو نفس وجوب کاسبب ظاہری کہاگیا ہے اس سے مراد مطلق وقت ہے لہٰذا شرائط وجوب جب بھی متحقق ہو اصل وجوب ثابت یعنی ذمہ مشغول بالواجب ہوجائے اور اہلیت وجوب آجائے گی مگر اس میں طلب ایقاع نہیں ہے یہ تو وجوب اداء میں ہے جس کا سبب حقیقی خطاب الٰہی ہے۔ لہٰذا نفس وجوب اُس خطاب سے جس پر صیغہٴ امر دال ہے بے نیاز نہیں ہوسکتا فلیس الوقت الذی ہو سبب لنفس الوجوب مغنیا عن الامر الذی ہو سبب لوجوب الاداء بل لابدمنہ (نورالانوار:۳۵) یعنی باوجود اصل وجوب (نفس وجوب) پائے جانے کے اگر وقت مخصوص للاداء نہیں ہے تو اداء درست نہیں ہے کیونکہ من جانب اللہ مطالبہ نہ ہونے کی وجہ سے ابھی فعل واجب الاداء نہیں ہے۔

اور اگر کسی کو اصرار ہے کہ فقہاء نے نفس وجوب سے بھی وقت خاص میں کلام کیاہے لہٰذا اشتغالِ ذمہ بھی وقت خاص میں ہوگا تو اوّلاً یہ عرض ہے کہ سبب وجوب کے لفظ سے نفس وجوب مراد لینا ہی محل نظر ہے (کما سبق) ثانیاً مقصود وجوب اداء ہے اور وہ مختص بالوقت ہے البتہ وجوب اداء سے قبل نفس وجوب کا ہونا ضروری ہے اور نفس وجوب بغیر شرائط کے نہیں ہوسکتا اس لیے فقہاء وقت میں شرائط کے تحقق سے بحث کرتے ہیں تاکہ وجوب اداء کو بیان کرسکیں۔ پس نفس وجوب شرائط سے ہے نہ کہ وقت خاص سے ہاں وجوب اداء وقت خاص سے قبل نہیں ہے اس طرح وقت میں دونوں وجوب مجتمع ہوجاتے ہیں اُسے ایک نظیر سے سمجھ سکتے ہیں۔

حالت احرام میں شکار کرنے سے جزاء واجب ہوتی ہے یہ جزائے فعل ہے لہٰذا ایک ہی شکار کو چند محرموں نے ملکر شکار کیا تو ہر ایک پر مستقل مکمل جزاء واجب ہوگی کیونکہ ہر محرم کا فعل مستقل موجب ہے اور حرم کے جانور کا شکار کرنے سے ضمان واجب ہوتا ہے یہ جزائے محل ہے لہٰذا چند حلال نے ملکر ایک جانور کو قتل کیا تو اُس ایک جانور کی قیمت بطور ضمان سب پر تقسیم کی جائیگی۔

غور کیاجائے جزائے صید جزائے فعل ہے یہ حرم کے ساتھ خاص نہیں اس کا مدار فعل اصطیاد بحالت احرام پر ہے اور ضمان حرم کے ساتھ خاص ہے پس اگر محرم نے حرم کے صید کو قتل کیا حلال شخص کے ساتھ ملکر تو محرم پر دو جرمانہ واجب ہوگا ایک فعل اصطیاد کی وجہ سے جو مکمل جزاء ہے اور دوسرا جرمانہ ضمانِ محل ہے جس میں محرم اورحلال دونوں شریک ہیں لہٰذا محرم دو جرمانوں کا حامل ہوا دو اعتبارات سے اور حلال پر فقط ایک ہی ضمان واجب ہے۔

اسی طرح سمجھئے کہ شرائط وجوب اگر وقت خاص میں متحقق ہورہی ہیں تو اہلیت وجوب ثابت ہوئی شرائط کی وجہ سے اور خطاب الٰہی متوجہ ہونے سے اداء بھی واجب ہوگی اور اگر وقت خاص نہیں ہے تو شرائط کی وجہ سے اصل وجوب بہرحال ثابت ہوگا۔ غرض نفس وجوب کے لیے وقت متعین نہیں ہے وجوب اداء کے لیے وقت کا ہونا ضروری ہے پس فقہاء کا وقت کو نفس وجوب کا سبب کہنا مذکورہ تقریر سے صحیح اور درست ہے مگر یہ مطلق زمان، عام وقت ہے اور جہاں وقت کو سبب وجوب اداء کہا گیا یہ وقت خاص ہے اور خاص میں عام ضرور پایا جاتا ہے ولا عکس۔ فافہم وتدبر

(دوسرا استشہاد) جمع بین الصلاتین حقیقتاً کی اجازت: امام مالک رحمة الله عليه کے نزدیک فقط مغرب و عشاء میں، امام شافعی رحمة الله عليه کے نزدیک سفر طویل میں چند شرطوں کے ساتھ اور امام احمد بن حنبل  رحمة الله عليه کے نزدیک مرض کی وجہ سے مطلقاً جمع بین الصلاتین کی اجازت ہونا (مسلم شریف مع شرحہ للنووی:۱/۲۴۵) دلیل ہے کہ نمازوں کا نفس وجوب مکلف کو قبل از وقت حاصل ہے جب ہی تو جمع تاخیراً کی طرح جمع تقدیماً بھی درست ہے ورنہ نفس وجوب سے قبل نماز کا کوئی اعتبار نہیں جیسے قبل البلوغ نفس وجوب ہے ہی نہیں۔

(تیسرا استشہاد) حجاج کے لیے میدانِ عرفہ میں وقوف کی خاطر چند شرطوں کے ساتھ جمع تقدیم کی اجازت ایک قوی دلیل ہے کہ مکلف کا ذمہ پہلے سے مشغول بالواجب ہے اگر شروط موجود ہوں تواداء میں جمع تقدیم عند الاحناف جائز ہے اور شرط فوت ہوجانے پر دونوں نمازوں کو اپنے اپنے وقت میں اداکرنا ضروری ہے اور یہ پہلے معلوم ہوچکا ہے کہ وجوبِ اداء مختص بالوقت ہے پس صرف حجاج کے لیے یومِ عرفہ کو وقوف کی غرض سے عصر کا وجوبِ اداء اس کے وقت سے قبل مانا گیا ہے اس لیے جمع تقدیم جائز ہے اوروجوب اداء سے پہلے نفس وجوب (اصل وجوب) کا ثبوت ضروری ہے اگر نفس وجوب ہی وقت خاص سے قبل نہ ہوتا تو جمع تقدیم کی اجازت ہرگز نہ ہوتی کیونکہ اصل وجوب کے بغیر اداء کا مطالبہ نہیں کیا جاتا جیسے اسلام سے قبل احکام کا اصل وجوب نہیں ہے۔

(چوتھا استشہاد) جنون کے طاری ہونے سے اگر وہ ممتد ہے تو وجوب ساقط ہوجاتا ہے یعنی عقل نہ رہنے کی وجہ سے مجنون خطاب الٰہی کا اہل نہیں رہتا اس لیے مطالبہ فعل یعنی وجوب اداء نہیں پایا جاتا۔ پھر اگر یوم ولیلة کے پورا ہونے سے پہلے افاقہ ہوگیا تو شرائط کے ساتھ مطلق وقت پالیا اس لیے اہلیت باقی ہے پس اداء نہ کرنے کی وجہ سے فوت شدہ نمازوں کی قضا واجب ہوگی اور اگر جنون یوم و لیلة سے متجاوز ہوگیا تو قضا بھی نہیں آئے گی اس لیے کہ بحالت عقل مطلق زمان بھی نہیں پایا۔

وسبب الصلاة الوقت ولا یحصل منہ وجوب الاداء... وکذلک وجوب الاداء یتعلق بالامر بعد کون الشیٴ واجباً بسببیّة السابق علیہ ودلالة ای دلیل ہذا الاصل وہو ان نفس الوجوب بالاسباب ووجوب الاداء بالامر اجماعہم علی وجوب الصلاة علی النائم والمجنون والمغمیٰ علیہ اذلم یزد الجنون والاغماء علی یوم ولیلة (حاشیہٴ حسامی:۱۱۹)

اورنفس وجوب کو قت خاص سے ماننے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مثلاً ایک شخص کو قبیل الزوال جنون لاحق ہوا یہاں تک کہ دوسرے دن طلوعِ آفتاب کے وقت افاقہ ہوا تو نئے موقف کے قائلین کے نزدیک قضاء بھی واجب نہ ہونی چاہئے کیونکہ نفس وجوب کسی نماز کا نہیں پایا اس لیے کہ بغیر شرائط کے وقت سبب وجوب بھی نہیں بنتا۔ اور فقہاء رحمہم اللہ کے کہنے کے مطابق کہ جنون یوم ولیلة سے زائد نہیں رہا قضاء واجب ہوگی۔

(پانچواں استشہاد) اہل بلغاریہ کا مسئلہ بھی ایک مستحکم دلیل ہے۔

بلغاریہ میں عشاء کا وقت مخصوص پایا ہی نہیں جاتا یعنی شفق غائب ہونے سے قبل صبح صادق ہوجاتی ہے ان کی عشاء کے بارے میں فقہاء کا اختلاف ہوگیا اس کا حاصل جو علامہ شامی نے نقل کیا ہے وہ عین مرادِ شریعت ہے یعنی قضاء واجب ہوگی اداء واجب نہیں ہوگی کیونکہ اداء فرض الوقت ہے اور جب اداء یعنی تسلیم عین الواجب کا وقت ہی نہیں تو اس کا وجوب بھی نہیں ہوگا پس عشاء کا واجب القضاء ہونا سبب وجوب نہ پائے جانے کے باوجود حجت ہے کہ نفس وجوب موجود ہے اس لیے کہ مطلق وقت بہرحال ہے اور وقت خاص نہ ہونے کی وجہ سے وجوبِ اداء نہیں ہے۔ لیکن اگر وقت معینہ کو نفس وجوب کا سبب موٴثر مانا جائے تو لازم آئے گا کہ اہل بلغاریہ پر عشاء کی نہ اداء ہو اور نہ ہی قضاء۔ وہو خلاف المنقول عن الفقہاء.

(چھٹا استشہاد) دنیا کا وہ خطہ جہاں چھ ماہ دن اور چھ ماہ رات ہوتی ہے ظاہر ہے کہ جب دن ہوتاہے تو غروب سے طلوع آفتاب تک تین نمازوں مغرب، عشاء اور فجر کا وقت اور جب رات رہتی ہے تو دو نمازیں ظہر وعصر کا وقت بالکل نہیں ہوتا۔ سوال یہ ہے کہ ایسے علاقہ میں بسنے والے مسلمان کیا چھ مہینہ تک مسلسل صرف تین نمازیں اور دوسرے چھ ماہ میں فقط دو نمازیں اداء کریں گے کیونکہ اوقاتِ مخصوصہ ہی کو نفس وجوب (اصل وجوب) کا سبب ماننے کا لازمی نتیجہ یہی ہوگا غالباً کوئی بھی اسکا قائل نہ ہو۔ اس لیے کہ جب ایجاب قدیم کو یا توارد نعم علی العباد کو نفس وجوب کا سبب حقیقی قرار دیا تو چونکہ یہ دونوں شمسی امتیازات سے آزاد ہیں اس میں زمان و مکان کا تفاوت نہیں ہے تو سبب ظاہری بھی عام ہونا چاہئے تاکہ صلوات خمسہ کا نفس وجوب جو شرائط کے وجود پر من جانب اللہ ثابت ہوتا ہے اس میں تمام مسلمانان عالم خواہ دنیا کے کسی بھی خطہ میں رہتے ہوں یکساں شامل ہوں البتہ بندوں سے اداء کا مطالبہ یعنی فرضیت اداء دفع حرج کے پیش نظر یرید اللّٰہ بکم الیسر ولایرید بکم العسر اور لایکلف اللّٰہ نفساً الا وسعہا کے تحت اوقات مخصوصہ میں کی گئی ہے۔

تمییز الطرقات لتحقق الشرائط للقربات

شروط کی تین قسمیں ہیں: (۱) شرطِ اہلیت (اصل وجوب) (۲) شرط وجوب اداء (۳) شرط صحة اداء۔

شرائطِ وجوب: شرائط اہلیت کا وجوب اداء کے لیے بھی ہونا شرط ہے کیونکہ اہلیت کے بغیر وجوب اداء ثابت نہیں ہوگا۔ وبدون الاہلیة لایثبت وجوب الاداء (بنایہ:۳/۳۴۵)

پس شرائط وجوب اداء میں شرائط اہلیت بھی شامل ہیں اسی لیے فقہاء کے کلام میں شرط اہلیت کو شرط وجوب اداء سے علیحدہ نہیں کیا جاتا۔ یعنی شرائط وجوب کے تحت دونوں طرح کی شرطیں مذکور ہوتی ہیں۔

شرائط اہلیت: (۱) بلوغ: نابالغ پر کوئی وجوب نہیں۔ والولد لاوجوب علیہ اصلاً (ہدایہ:۲۲۲)

والعبادات باسرہا موضوعة عن الصبیان (بنایہ:۴/۹)

(۲) اسلام: کافر پر بجزاسلام کے کسی حکم شرعی کا وجوب نہیں ہے اور ارتداد سے بھی وجوب ساقط ہوجاتا ہے۔ ولم یجب علی الکافر شیٴ من الشرائع التی ہی الطاعات لما لم یکن اہلا لثواب الآخرة (حسامی:۱۳۳)

ولو ارتد بعد وجوبہا سقطت (طحطاوی:۷۱۴)

(۳) عقل: اس کے نفس وجوب کی شرط ہونے میں اختلاف ہے۔ اما العقل فہل ہو من شرائط الوجوب وکذا الافاقة والیقظة قال عامة مشائخنا انہا لیست من شرائط الوجوب ویجب صوم رمضان علی المجنون والمغمی علیہ لکن اصل الوجوب لاوجوب الاداء الخ (بدائع:۲/۸۸)

لیکن جنون اگرمطبق ہوتو اصل وجوب بھی ساقط ہوجاتا ہے اس اعتبار سے عقل شرطِ نفس وجوب ہے۔ واذا امتد فصار لزوم الاداء یوٴدی الی الحرج فیبطل القول بالاداء وینعدم الوجوب ایضاً لانعدامہ ای الاداء والحاصل انہ اذا کثر الجنون بان امتد فلا وجوب للاداء علیہ لانہ یفضی الی الحرج ولانفس الوجوب علیہ ایضاً لان الغرض من نفس الوجوب الاداء فاذا سقط الاداء بطل نفس الوجوب ایضاً لفوات الغرض (حاشیہ حسامی:۱۳۸)

شرائطِ وجوب اداء کی تشریح: چونکہ وجوب اداء کے لیے قدرت علی فہم الخطاب اور قدرت علی اداء المامور بہ شرط ہے اس لیے کہ خطاب عاجز کی طرف متوجہ نہیں ہوتا اور مجنون فہم خطاب اورادائے مامور بہ سے عاجز ہے اس لیے عقل اور بلوغ وجوبِ اداء کے لیے بھی بہرحال شرط ہے۔ فالقدرة شرط لوجوب الاداء لالنفس الوجوب لان التکلیف ہو طلب ایقاع الفعل من العبد وانفس الوجوب لاطلب فیہ بدلیل ان صوم المریض والمسافر واجب ولا تکلیف علیہما (فتح الغفار،ص:۷۳)

حاصل یہ کہ مذکورہ تینوں اوصاف شرائط تکلیف کہلاتے ہیں جو تمام عبادتوں کے وجوب کے لیے شرط ہیں۔

یشترط لفرضیتہا ای لتکلیف الشخص بہا ثلثة اشیاء الاسلام لانہ شرط للخطاب لفروع الشریعة والبلوغ اذلاخطاب علی الصغیر والعقل لانعدام التکلیف دونہ (مراقی:۱۷۳)

ہی فرض عین علی کل مکلف ... ثم المکلف ہو المسلم البالغ العاقل ولو انثی او عبد (رد المختار:۲/۴)

وہو ای صوم رمضان فرض عین اداءً وقضاءً علی من اجتمع فیہ اربعة اشیاء ہی شروط لافتراضہ والخطاب بہ وتسمّی شروط وجوب احدہا الاسلام الخ (مراقی:۶۳۴)

اما شروطہ فثلثة شرط وجوبہ الاسلام والعقل والبلوغ وشرط وجوب الاداء الصحة والاقامة وشرط صحة الاداء النیة والطہارة عن الحیض والنفاس کذا فی الکافی والنہایة (عالمگیری:۱/۱۹۵ کتاب الصوم)

لہٰذا اوصافِ تکلیف نماز، روزہ دونوں میں اصل وجوب اور وجوبِ اداء دونوں کی شرط ہے اور طہارة عن الحیض والنفاس عورت کے حق میں مزید شرطِ وجوبِ اداء اور شرطِ صحت اداء ہے اور صحت (تندرستی) واقامت صرف روزہ کے وجوبِ اداء کیلئے شرط ہے۔

ویشترط لوجوب ادائہ الذی ہو عبارة عن تفریغ الذمة فی وقتہ الصحة من مرض والخلو عن الحیض والنفاس (مراقی:۶۳۴) وشروط وجوب ادائہ وہی ثلثة الصحة والاقامة والخلو عن الحیض والنفاس. (شامی:۳/۳۳۱)

ویشترط لصحة ادائہ ای فعلہ لیکون اعم من الاداء والقضاء ثلثة (قولہ عن الحیض والنفاس فالخلو عنہما من شروط الوجوب ای وجوب الاداء وشرط الصحة (مراقی:۶۲۵)

والطہارة عن الحیض والنفاس شرط لتحقق الاداء فی حق النساء (ہدایہ:۲۱۶)

قولہ لتحقق الاداء فلا یجوز ادائہ للحائض والنفساء نعم یجب القضاء لثبوت اصل الوجوب. (حاشیہٴ ہدایہ)

پس حیض و نفاس کیوجہ سے نفس وجوب یعنی اہلیت زائل نہیں ہوتی مگر اداء متحقق نہ ہونے کی وجہ سے کہ طہارت شرطِ اداء ہے اور وجوب اداء متصل بالاداء ہوتا ہے اس لیے وجوب اداء کا بھی تحقق نہ ہوگا لیکن اصل وجوب پائے جانے سے جس طرح روزہ بالکلیہ ساقط نہیں ہوا ہے قیاس کا تقاضہ تھا کہ نماز بھی ساقط نہ ہو مگر دفع حرج کے لیے اصل صلاة کاسقوط ہوا ہے۔ حاصل یہ کہ شرط وجوب اداء کے فوت ہونے سے اصل وجوب ختم نہیں ہوجاتا ہے۔

اما الحیض والنفاس فانہما لا یُعدمان اہلیةً بوجہ مّا لکن الطہارة شرط لجواز اداء الصوم والصلاة فیفوت الاداء بہما وفی قضاء الصلاة حَرَج لتضاعفہا فسقط بہما اصل الصلاة ولا حرج فی قضاء الصوم فلم یسقط اصلہ (حسامی:۱۵۰)

قولہ بوجہٍ مّا ای لا اہلیة الوجوب ولا اہلیة الاداء لانہما لایُخلاّن بالذمة ولا بالعقل وقدرة البدن فکان ینبغی ان لایسقط بہما الصلاة کما لا یسقط بہ الصوم لکن الطہارة لما کان لجواز اداء الصوم والصلاة شرط فیفوت الاداء. وفی قضاء الصلاة حرج فسقط بہما اصل الصلاة ای نفس الوجوب ولا حرج فی قضاء الصوم فلم یسقط اصلہ ولذا یقضی الصوم دون الصلاة فافہم. (حاشیہٴ حسامی:۱۵۰)

اور طہارت عن الحیض جس طرح شرطِ اداء ہے اسی طرح وقت خاص بھی شرط اداء ہے۔ ثم دخول الوقت شرط لصحة اداء الصلاة (کبیری:۲۲۴)

پس اگر اوصاف ثلثہ کے ساتھ وقت خاص کو بھی اصل وجوب کے تحقق کے لیے شرط قرار دیں تو وقت گذر جانے پر نفس وجوب ہی ساقط ہوجائے گا کہ اذا فات الشرط فات المشروط .

اور وجوبِ حج کی شرائط میں اسلام، عقل، بلوغ اور حریت شرائط وجوب یعنی اہلیت وجوب ہیں اور استطاعت بھی بالاتفاق شرط وجوب ہے مگر چونکہ حجاج کی اکثریت آفاقی ہے اس لیے وصول الی مواضع الاداء کے لیے شرط ہے اہل مکہ ومن حولہم کے حق میں شرطِ وجوب نہیں ہے۔ نیز یہ شرط محض ہے شرط فی معنی العلة نہیں یعنی ادائے ارکان کے لیے مال کا باقی رہنا شرط نہیں ہے اسی لیے وجوبِ حج کے بعد اگر مال ہلاک ہوگیا تو حج ذمہ سے ساقط نہیں ہوگا اگرچہ جب بھی اداء کرے گا اداء کہلائے گا قضاء نہیں۔اور بقیہ شرائط کے شرط وجوب اور شرط اداء ہونے میں اختلاف ہے۔

(۱) شرائط وجوبہ فمنہا الاسلام ومنہا العقل ومنہا البلوغ ومنہا الحرّیة ومنہا القدرة علی الزاد والراحلة ثم تکلموا ان امن الطریق وسلامة البدن علی قول ابی حنیفة ووجود المحرم للمرأة شرط وجوب الحج ام للاداء بعضہم جعلوہا شرطا للوجوب وبعضہم شرطا للاداء وہو الصحیح (عالمگیری:۲۱۸)

واعلم ان القدرة علی الزاد والراحلة شرط الوجوب لانعلم عن احد خلافہ وقالوا لو تحمل العاجز عنہما فحج ماشیا یسقط عنہ الفرض حتی لو استغنی لایجب علیہ ان یحج (فتح القدیر:۲/۴۱۹)

والمال لیس بسبب فیہ ولکنہ معتبر لیتیسر بہ الوصول الی مواضع اداء ارکانہ (مبسوط)

بخلاف صدقة الفطر والحج فان المال ہناک شرط الوجوب لاشرط الاداء فاذا تقرر الوجوب فی ذمتہ لم یسقط بہلاک مالہ (مبسوط:۲/۱۷۵)

عبادت مالی میں اوصاف تکلیف کے علاوہ قدرت علی المال یعنی ایک معتد بہ مقدارِ مال کا مالک ہونا بھی ضروری ہے اس مقدار کی تفصیل میں ائمہ مجتہدین کا اختلاف ہے اور ملک تام بغیر حریت کے ثابت نہیں ہوتی ہے پس زکوٰة، صدقة الفطر، اور قربانی تینوں میں مکلف کے لیے پانچ شرائط کا ہونا ضروری ہے اور یہ شرائط جو مکلف کے اوصاف ہیں مکلف کی ذات سے متعلق ہیں۔اور یہ پانچوں شرطیں اصل وجوب کی شرائط ہیں۔ البتہ غنائے شرعی کی حیثیت اِن تینوں عبادتوں میں جداگانہ ہے۔

پھر زکوٰة میں مال کا نامی ہونااورحولان حول یہ وجوب اداء کے لیے شرط ہیں اورمال سے متعلق۔ اور قربانی میں مکلف کا ایام نحر میں مقیم ہونا دفعاً للحرج وجوب اداء کی شرط ہے۔

وشرط الاقامة لان المسافر یلحقہ مشقة فی ادائہا (بنایہ:۱۱/۴)

غیر ان الاداء یختص باسباب یشق المسافر استحضارہا ویفوت بمضی الوقت فلا تجب علیہ بمنزلة الجمعة (ہدایہ، بنایہ:۱۱/۹)

وقت وجوب میں شرائط کا اعتبار

پہلے گذرچکا ہے کہ وجوب اداء وقت کے ساتھ خاص ہے اس لیے شرائط کا وقت وجوب میں پایا جانا ضروری ہے اور شریعت میں اس کا ہی اعتبار کیاگیا ہے یعنی اگر وقت وجوب سے قبل شرائط نہ پائے گئے تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن وقت وجوب میں شرائط موجود ہیں تو وجوبِ اداء متحقق ہوگا یعنی فرضیت ثابت ہوجائے گی یہ نہیں کہ شرائط موجود ہوں پھر بھی ذمہ مشغول بالواجب نہ ہو چنانچہ حولان حول کے وقت وجوب زکوٰة کے لیے اور صبح یوم الفطر کے وقت صدقة الفطر کے وجوب کے لیے شرائط کا موجود ہونا ضروری ہے۔

اور واجباتِ موقتہ (نماز، روزہ اورقربانی) میں چونکہ وقت ممتد ہے اس لیے وجوب اداء کے لیے شرائط کا وقت کے جزء آخر میں پایا جانا معتبر ہے از اوّل تا آخر پورے وقت میں رہنا ضروری نہیں ہے یعنی اگر ابتدائے وقت میں شرائط نہ ہوں (خواہ شرط اہلیت ہی نہ ہو یا فقط شرطِ وجوبِ اداء نہ ہو) تو کوئی حرج نہیں اخیر وقت میں بھی تمام شرائط کا تحقق ہوگیااس طرح پر کہ شروع فی اداء الواجب ممکن ہے تو وجوب اداء متحقق ہوجائے گا اوراگر اول وقت میں شرائط پائے گئے مگر واجب اداء نہ کیا یہاں تک کہ آخر وقت میں کوئی شرط فوت ہوگئی یا موت واقع ہوگئی تو اداء واجب نہیں ہوئی پس ترکِ فرض لازم نہیں آئے گا۔

والمعتبر ہذہ الشرائط آخر الوقت وان لم تکن فی اولہ (شامی:۴۵۳)

الوجوب یتعلق عندنا بآخر الوقت بمقدار التحریمة حتی ان الکافر اذا اسلم والصبی اذا بلغ والمجنون اذا افاق والحائض اذا طہرت ان بقی مقدار التحریمة یجب علیہ الصلاة عندنا کما فی المضمرات واذا اعترضت ہذہ العوارض فی آخر الوقت سقط الفرض بالاجماع کذا فی مختار الفتاویٰ (عالمگیری:۱/۵۱)

اور روزہ شروع ہوتا ہے صبح صادق سے اس لیے اس سے قبل شرائط ہوں تو وجوبِ اداء ہوگا۔

واذا بلغ الصبی او اسلم الکافر فی رمضان امسکا بقیة یومہما ولو افطرا فیہ لاقضاء علیہما وصاما بعدہ لتحقق السبب والاہلیة ولم یقضیا یومہما ولا ما مضی لعدم الخطاب وہذا بخلاف الصلاة لان السبب فیہا الجزء المتصل بالاداء فوجدت الاہلیة عندہ وفی الصوم الجزء الاول والاہلیة منعدمة عندہ (ہدایہ:۲۲۳)

شرائط کا آخر وقت میں معتبر ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اوّل وقت میں شرائط کا وجود ہی غیر معتبر ہے یعنی اہلیت پیدا ہی نہیں ہوگی اور ذمہ مشغول بالواجب نہیں ہوگا پس اگر وقت کے حصہ اوّل میں شرائط موجود ہیں تو اہلیت بہرحال ثابت ہوگئی اورگو پورے وقت میں وجوب اداء کا سبب بننے کی صلاحیت ہے مگر حقیقت میں سبب وہی جزء کہلائے گا جو اداء سے متصل ہے نہ کہ بالتعیین جزء اول۔ ٹھیک اسی طرح اگر شرائط وجوب وقت مخصوص سے قبل متحقق ہوئے تو اہلیت (اصل وجوب) بہرحال قائم ہوگی لیکن وجوب اداء وقت کی آمد کے بعد ہی ہوگا اس سے پہلے نہیں۔

اور وجود شرائط کے سلسلہ میں قربانی کا حال بھی نماز کی شرطوں کی طرح ہے۔

وہذہ قربة موقتة فیعتبر الغنا فی وقتہا ولا تشترط ان یکون غنیا فی جمیع الوقت حتی لو کان فقیرا فی اوّل الوقت ثم ایسر فی آخرہ یجب علیہ لما ذکرنا (بدائع:۵/۶۴)

الفقر والغنا والولادة والموت انما یعتبر فی حق الاضحیة آخر ایام النحرفلو کان غنیا فی اوّل الیوم فقیرا فی آخرہ لاتجب علیہ وعلی العکس تجب (شرح کنز لملاّ مسکین:۳۷۹)

شرائط صحة اداء

شرائطِ اہلیت کا جس طرح وجوب اداء کے لیے ہونا ضروری ہے اسی طرح ادائے واجب کی صحت کے لیے بھی شرط ہے کیونکہ شرطِ وجوب فوت ہونے سے اگر اہلیت ہی ختم ہوگئی تو وجوب اداء کا تحقق نہ ہوگا اوراداء وجوب پر متفرع ہے۔ ولو ارتد بعد وجوبہا سقطت (طحطاوی:۷۱۴) اور اگر شرطِ وجوبِ اداء شرطِ صحة بھی ہے جیسے طہارة عن الحیض (مثلاً عورت رمضان میں حائضہ ہوگئی) تو روزہ کا وجوبِ اداء نہ ہوگا مگراصل وجوب باقی رہے گا اور اگر صرف شرطِ صحت فوت ہو تو نفس وجوب برقرار رہے گا اور وجوب اداء بھی متحقق ہوگا جیسے طہارة عن الجنابة.

بخلاف الجنب والمحدث لان اہلیتہما غیرمعدومة بسبب الجنابة والحدث لانہما مباحان لکن الطہارة لہما شرط صحة الاداء وبعدم الشرط لاتعدم الاہلیة (البنایہ:۳/۳۴۵)

بہرحال شرائط وجوب کے علاوہ صحت ادائے واجب کے لیے بھی شرطیں ہوتی ہیں خواہ اداء ہو کہ قضاء مثلاً نیت، طہارتِ بدن، ثوب اور مکان، ستر عورت، استقبالِ قبلہ اور اداء (مقابل قضاء) کے لیے وقت کا ہونا۔

اور حج کے لیے مثلاً احرام، زمان و مکان اور وہ تمام شرطیں جن کے بارے میں شرطِ وجوب شرطِ اداء میں اختلاف ہے اور شرط ادا ہونا راجح ہے۔

اور قربانی کے لیے مثلاً جانور کا مخصوص عمر والا ہونا، عیوب سے خالی ہونا، وقت کا ہونا اور اہل شہر کے حق میں قربانی کے لیے نماز عید سے فارغ ہوجانا۔

شرطِ وجود و شرطِ بقاء

مالی عبادات کی شرائط میں ملک نصاب (غنا) مرکزی شرط ہے۔ شرط بایں معنی کہ حکم کا وجود اس پر موقوف ہے جیساکہ صاحب کنز وغیرہ نے شرط سے تعبیر کیا ہے اور شرعاً تعددِ واجب کی معرفت کے لیے سبب قرار دیاگیا ہے۔ کما فی جمیع کتب الفقہ. اور حقیقت میں یہ غنا وجوبِ زکوٰة کے لیے علّت ہے... فعلمنا ان ملک النصاب علة (قولہ علة ای سبب لافتراض الزکوٰة واما سبب لزوم ادائہا فتوجہ الخطاب. (نورالانوار:۹۶) اور ادائے زکوٰة موقّت نہیں ہے اس لیے وجوب فی الذمہ کے بعد علی الاطلاق ادائے واجب تک شرط کا باقی رہنا ضروری ہے یعنی دوامِ واجب کے لیے بقاءِ شرط بھی لازم ہے بخلاف صدقة الفطر کہ غنا اس کے حق میں شرطِ محض ہے موٴثر فی الوجوب نہیں ہے اس لیے وقت وجوب میں شرط کے پائے جانے سے وجوبِ اداء متحقق ہوجائے گا بعدہ شرط فوت ہوجانے سے واجب ذمہ سے ساقط نہیں ہوگا۔

ثم القدرة الممکنة لما کانت شرطا للتمکن من الفعل واحداثہ کانت شرطا محضا لیس فیہ معنی العلة فلم یشترط بقائہا لبقاء الواجب اذ البقاء غیر الوجود وشرط الوجود لایلزم ان یکون شرط البقاء کالشہود فی النکاح شرط للانعقاد دون البقاء بخلاف المیسرة فانہا شرط فیہ معنی العلة (شامی:۳/۳۱۴)

دوام ہذہ القدرة شرط لدوام الواجب ای دوام المیسرة شرط لدوام ما وجب بہا لانہا شرط فیہ معنی العلة (فتح الغفار:۷۵)

(فلا تشترط بقائہا) ای بقاء ہذہ القدرة وہی النصاب حتی لوہلک بعد فجر یوم الفطر لاتسقط لانہا شرط محض ای لیس فیہ معنی العلة الموثرة بخلاف القدرة المیسرة (در مختار:۳/۳۱۳)

اور غالباً حج کی شرطِ استطاعت بھی صدقة الفطر کی شرطِ غنا کی طرح ہے۔

بخلاف صدقة الفطر والحج فان المال ہناک شرط الوجوب لاشرط الاداء فاذا تقرر الوجوب فی ذمتہ لم یسقط بہلاک مالہ. (مبسوط:۲/۱۷۵)

اور یہی ملک نصاب زکوٰة کی طرح قربانی کے وجوب فی الذمہ کے لیے بھی علت ہے اور اداء کا محل بھی مال ہے۔ اورایام نحر ادائے واجب کے لیے وقت نماز کی طرح شرطِ اداء ہے۔ غالباً اسی مشابہت کی وجہ سے علت وجوب کے تحقق کے بعد وقت اداء میں اداء نہ کرنے کی صورت میں وقت گذرنے سے قبل اگر فقر لاحق ہوگیا یا مرگیا تو اضحیہ ساقط ہوجائے گا بلکہ حقیقت میں اضحیہ کا وجوب ہی نہیں ہوا جیسے زکوٰة واجب ہونے کے بعد مطلقاً یعنی کبھی بھی مال ہلاک ہوجانے سے ساقط ہوجاتی ہے اس لیے کہ پوری عمر ادائے زکوٰة کا وقت ہے۔

وہذہ لانہا تشبہ الزکوٰة من حیث انہا تسقط بہلاک المال قبل مضی ایام النحر کالزکوٰة بہلاک النصاب (ہدایہ آخرین:۴۴۶)

لانہا تسقط بالہلاک قبل مضی ایام النحر کالزکوٰة تسقط بہلاک النصاب (شرح نقایہ:۲/۲۶۹)

اور بغیر اداء کے وقت گذر گیا تو وجوب موٴکد ہوکر واجب اس کے ذمہ دَین بن گیا اب فقر لاحق ہونے سے حکم ساقط نہ ہوگا۔

ولو کان موسرا فی جمیع الوقت فلم یضحّ حتی مضی الوقت ثم صار فقیراً صار قیمة شاة صالحة للاضحیة دَینا فی ذمتہ یتصدق بہا متی وجدہا لان الوجوب قد تأکد علیہ بآخر الوقت فلا یسقط بفقرہ بعد ذلک کالمقیم اذا مضی علیہ وقت الصلاة ولم یصل حتی سافر لایسقط عنہ شطر الصلاة وکالمرأة اذا مضی علیہا وقت الصلاة وہی طاہرة ثم حاضت لایسقط عنہا فرض الوقت حتی یجب علیہا القضاء اذا طہرت عن حیضہا کذا ہہنا . ولو مات الموسر فی ایام النحر قبل ان یضحّی سقطت عنہ الاضحیة وفی الحقیقة لم تجب لما ذکرنا ان الوجوب عند الاداء او فی آخر الوقت فاذا مات قبل الاداء مات قبل ان تجب علیہ کمن مات فی وقت الصلاة قبل ان یصلیہا انہ مات ولا صلاة علیہ کذا ہہنا (بدائع:۵/۶۵، کتاب الاضحیة)

نور السَنیٰ لمن یجب علیہ الاضحیة بالغنی

قربانی بالاتفاق مالی عبادت ہے

قربانی امام اعظم ابوحنیفہ رحمة الله عليه کے نزدیک واجب ہے ائمہ ثلثہ امام مالک رحمة الله عليه، امام شافعی رحمة الله عليه، امام احمد بن حنبل رحمة الله عليه کے نزدیک سنت موٴکدہ ہے اوریہ بالاتفاق مالی عبادت ہے چنانچہ قدرة علی المال تمام ائمہ کے نزدیک شرط ہے پس عاجز پر بالاجماع قربانی واجب نہیں ہے البتہ قدرت کی حد میں تفصیل ہے۔

تنقسم شروط الاضحیة الی قسمین شروط سنّیّتہا وشروط صحتہا... فاما سنّیّتہا فلا تسن للعاجز عنہا وفی حد القدرة تفصیل المذاہب.

الحنفیة قالوا : القادر علیہا ہو الذی یملک مائتی درہم

الحنابلة قالوا : القادر علیہا ہو الذی یمکنہ الحصول علی ثمنہا ولو بالدَّین اذا کان یقدر علی وفاء دَینہ

المالکیة قالوا: القادر علیہا ہو الذی لایحتاج الی ثمنہا لامر ضروری فی عامہ فاذا احتاج الی ثمنہا فی عامة فلا تسن

الشافعیة قالوا: القادر علیہا ہو الذی یملک ثمنہا زائدًا عن حاجتہ وحاجة من یعول یوم العید وایام التشریق (الفقہ علی مذاہب الاربعہ)

اور قربة مالیہ کی ادائیگی کی دو جہتیں ہیں قربانی دونوں کو جامع ہے۔

اعلم ان القُرَب المالیة نوعان نوع بطریق التملیک کالصدقات ونوع بطریق الاتلاف کالعتق ویجتمع فی الاضحیة معنیان فانہ تقرب باراقة الدم وہو الاتلاف ثم بالتصدق باللحم وہو تملیک (مبسوط:۱۱/۸)

یہی وجہ ہے کہ اس کی ادائیگی میں نیابت بھی جائزہے۔ لانہا قربة تتعلق بالمال فتجری فیہا النیابة کاداء الزکوٰة والصدقة (بدائع:۵/۶۷)

اور عبادتِ مالیہ کا وجوب مال پر موقوف ہے اور وہ شرعاً مقدارِ نصاب کا مالک ہونا ہے۔

اذ الغنا یوجب الاحسان وہو یحصل بالنصاب (نورالانوار:۲۷۴)

لان العبادة المالیة متوقفة علی المال (عمدة الرعایة ۴/۳۸)

قربانی کا وجوب فی الذمہ غنا سے ہے

قربانی کا وجوب بھی غنا ویسار (ملک (نصاب) سے ثابت ہوتا ہے اور یہی وجوب فی الذمہ ہے جو منجانب اللہ ہے اور وہ وقت پر موقوف نہیں ہے۔

ہی واجبة وانما تجب علی حر مسلم مقیم موسر (ملتقی الابحر:۴/۱۶۶)

قولہ (موسر) لان العبادة لاتجب الاعلی القادر وہو الغنی دون الفقیر (مجمع الانہر:۴/۱۶۶)

واما شرائط الوجوب منہا الاسلام ... ومنہا الحریة ... ومنہا الاقامة ... ومنہا الغنا. والغنا شرط الوجوب فی ہذا النوع لانہ حق مالی متعلق بملک المال (بدائع:۵/۶۳)

ولان الموسر تجب علیہ الاضحیة فی ذمتہ (بدائع)

وجوب فی الذمہ کا حکم مُوسِر پر لگانا یہ دلیل ہے کہ یسار حکم کی علّت ہے۔

لان ترتیب الحکم علی المشتقّ نص علی علّیّة مبدأ الاشتقاق (فتح الغفار:۶۰)

اور یہی حقیقت ہے اس میں کسی کااختلاف نہیں ہے۔ وشرط الیسار لقولہ صلى الله عليه وسلم من وجد سعة ولم یضح فلا یقربن مصلانا یدل علی ان الوجوب بالسعة ولا سعة للفقیر (بنایہ:۱۱/۴)

اذ لانزاع لاحد ان علّہ وجوب الاضحیة علی الموسر ہی القدرة علی النصاب (تکلمة فتح القدیر:۹/۵۰۷)

... لان علة الوجوب فی المعسر ہی الاشتراء بنیة الاضحیة کما صرحوا بہ لاالقدرة وعلتہ فی الموسر ہی القدرة لا الاشتراء بنیة الاضحیة کما صرحوا بہ ایضاً فبعد ان تقرر ان علّتہ فی الموسر ہی القدرة لاغیر الخ (تکملہ فتح القدیر:۹/۵۰۷)

وجوب فی الذمہ قبل یوم النحر اور ایجاب کی تین قسمیں

وجوب فی الذمہ کی دو صورتیں ہیں اوّل بایجاب اللہ تعالیٰ جس کے لیے غنا شرط (یعنی علّت) ہے اور یہ وجوب غیر اختیاری ہے، دوم بایجاب العبد جس کا سبب نذر ہے اوریہ وجوب اختیاری ہے خواہ ناذر غنی ہو کہ فقیر۔

والوجوب بسبب النذر یستوی فیہ الفقیر والغنی وان کان الواجب یتعلق بالمال (بدائع:۵/۶۱)

یہی وجہ ہے کہ غنیٴ ناذر پر دو قربانی واجب ہوگی اور فقیر نے نذر مانی تو فقط ایک ہی۔ چاہے ایام نحر سے پہلے نذر مانے یا ایام نحر میں۔

ولو قال ذلک (ای نذر ان یضحّی بشاة وہو موسر) قبل ایام النحر یلزمہ التضحیة بشاتین بلا خلاف... ولو قال ذلک وہو معسر ثم ایسر فی ایام النحر فعلیہ ان یضحی بشاتین (بدائع:۵/۶۳)

یعنی ایام نحر سے پہلے غنی نے نذر مانی تو اس کے ذمہ دو بکری کی قربانی لازم ہوگی۔اوراگر تنگدست نے نذر مانی تو ایک قربانی لازم ہوگی پھر اگر ایام نحر میں وہ مالک نصاب بھی بن گیا تو دوسری لازم ہوگی ورنہ نہیں۔

دیکھئے غنا اور نذر دونوں وجوب فی الذمہ کا ذریعہ ہیں اورآدمی جب بھی نذر مانے اس کا ذمہ مشغول بالواجب ہوتا ہے تواسی طرح غنا کا جب تحقق ہوگا من جانب اللہ ذمہ مشغول بالواجب ہوجائے گا۔ ان دونوں کے مابین کوئی فصل نہیں ہے۔

علامہ زیلعی تبیین الحقائق میں ایام نحر گذر جانے اور قربانی نہ کرنے کی صورت میں فقیر وغنی کے درمیان فرق کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

بخلاف الغنی لان الاضحیة واجبة فی ذمتہ فیجریہ التصدق بالشاة عنہ او بقیمتہا ولا یجب علیہ اکثر من ذلک الا اذا التزم التضحیة بالنذر وعنی بہ غیر الواجب فی ذمتہ فحینئذٍ یجب علیہ ان یتصدق بالمنذور کما بینا فی حق الفقیر مع الواجب الذی فی ذمتہ وہی الشاة التی وجبت بسبب الیسار وکذا اذا اطلق النذر ولم یُرِد بہ الواجب فی ذمتہ یجب علیہ غیرہ معہ وان اراد بہ الواجب بسبب الیسار لایلزمہ غیرہ (تبیین الحقائق:۶/۴۷۸)

غنا وجوب فی الذمہ میں موٴثر ہے اس عبارت میں سبب کا لفظ لغوی معنی میں ہے شرعی مفہوم میں نہیں ہے۔ حاصل یہ کہ وجوب فی الذمہ یعنی نفس وجوب موقت نہیں ہے اس لیے کہ اس کے اسباب مختص بالوقت نہیں ہیں۔

ایجاب کی تیسری قسم بھی ہے اور وہ فقیر کا بنیة تضحیہ جانور خریدنا ہے۔

وان الشراء للاضحیة ممن لا اضحیة علیہ یجری مجری الایجاب وہو النذر بالتضحیة عرفا بخلاف الغنی لان الاضحیة علیہ بایجاب الشرع ابتداء فلا یکون شرائہ للاضحیة ایجابا بل یکون قصدا الی تفریغ ما فی ذمتہ (بدائع:۵/۶۲)

... لان علة الوجوب فی المعسر ہی الاشتراء بنیة الاضحیة کما صرحوا بہ لا القدرة (تکلمہ فتح القدیر:۹/۵۰۷)

اور ذیل کی عبارت میں ان تینوں ایجاب کو یکجا ملاحظہ کیجئے۔

ولو اشتری رجل اضحیة وہی سمینة فعجفت عندہ حتی صارت بحیث لو اشتراہا علی ہذہ الحالة لم تجزہ ان کان موسرا. وان کان معسراً اجزأتہ لان الموسر تجب علیہ الاضحیة فی ذمتہ وانما اقام ما اشتری لہا مقام مافی الذمة فاذا نقصت لاتصلح ان تقام مقام مافی الذمہ فبقی مافی ذمتہ بحالہ واما الفقیر فلا اضحیة فی ذمتہ فاذا اشتراہا للاضحیة فقد تعیّنت الشاة المشتراة للقربة فکان نقصانہا کہلاکہا حتی لوکان الفقیر اوجب علی نفسہ اضحیة لا تجوز ہذہ لانہا وجبت علیہ بایجابہ فصار کالغنی الذی وجبت علیہ بایجاب اللّٰہ عز شانہ (بدائع:۵/۷۶)

خلاصہ یہ کہ جس طرح نذر مُوجِب ہے اسی طرح شراء بنیة التضحیة مُوجِب ہے البتہ نذر کا وجوب ذمہ میں ہوتا ہے اور شراء کا اضحیة میں اورنذر کا مُوجِب ہونا ایام نحر کے ساتھ خاص نہیں ہے تو پھر غنا کا ایجاب منجاب اللہ تعالیٰ کیسے ایام و اوقات کے ساتھ خاص ہوجائے گا۔

واجباتِ مالیہ اور حرمتِ صدقہ کا ثبوت غِنیٰ سے ہے

یہی وجہ ہے کہ شرعاً غنی ہوتے ہی وہ شخص مستحق صدقہ نہیں رہتا ہے یہ عدم استحقاق یعنی حرمة اخذ صدقہ ظاہر ہے کہ ایام نحر کے ساتھ مختص نہیں ہے۔

ویتعلق بہذا الیسار احکام ثلثة حرمة اخذ الصدقة، ووجوب زکوٰة الفطر والاضحیة (مبسوط:۳/۱۰۲)

ویتعلق بہذا النصاب حرمان الصدقة ووجوب الاضحیة والفطر (ہدایہ:۲۰۸)

وہی واجبة علی الحر المسلم المالک لمقدار النصاب فاضلاً عن حوائجہ الاصلیة کذا فی الاختیار شرح المختار ولا یعتبر فیہ وصف النماء ویتعلق بہذا النصاب وجوب الاضحیة ووجوب نفقة الاقارب ہکذا فی فتاوی قاضیخان (عالمگیری:۱/۱۹۱)

اعلم ان النصب ثلثة (۱) نصاب یشترط فیہ النمو ویتعلق بہ الزکوٰة وسائر الاحکام المتعلقة بالمال النامی. (۲) ونصاب تجب بہ احکام اربعة حرمة الصدقة، ووجوب الاضحیة، وصدقة الفطر ونفقة الاقارب ولا یشترط فیہ النمو بالتجارة ولاحولان الحول. (۳) ونصاب یثبت بہ حرمة السوال وہو ما اذا کان عندہ قوت یومہ عند البعض وقال بعضہم ہو ان یملک خمسین درہما (طحطاوی:۷۳۳ وکذا فی العنایة)

پس اگر کوئی شخص مثلاً یکم رجب کو نصاب کا مالک بنا تو شرعاً اس کے ذمہ کئی حقوق عائد ہوتے ہیں نفقہ اقارب اس کے ذمہ لازم ہوگیا، صدقہ لینا حرام ہوگیا، اور صدقة الفطر اور قربانی کا وجوب (اصل وجوب) بھی آگیا اور اگر نصاب نامی ہے تو ان سارے حقوق کے ساتھ زکوٰة و عشر وغیرہ کا وجوب بھی متحقق ہوگیا۔ لہٰذا

(۱) مالک نصاب کا ذمہ مشغول بالواجب ہوگیا ہے جب ہی تو اخذ صدقہ حرام ہے کیونکہ حرمة صدقہ کے لیے کسی کا فقط مالک نصابِ فاضل ہونا کافی ہے قطع نظر اس سے کہ ملک نصاب اس کے حق میں شرط ہے یا علّت یا پھر سبب۔

(۲) غنی ہونے کی وجہ سے اگر زکوٰة کی اہلیت پیداہوگئی تو پھر وجوب اضحیة کی اہلیت بھی یقینا آئیگی کہ دونوں میں ملک نصاب علّت ہے۔

(۳) اور اگر صدقة الفطر کا نفس وجوب متحقق ہوگیا تو قربانی کااصل وجوب کیونکر نہ ہوگا جبکہ دونوں میں ایک ہی طرح کا غنا شرط ہے بلکہ صدقہ میں شرط محض ہے اور قربانی میں شرط موٴثر فی الوجوب ہے البتہ وجوبِ اداء ابھی نہ صدقة الفطر میں وارد ہوا ہے اورنہ ہی زکوٰة میں۔ اسی طرح قربانی کا وجوبِ اداء بھی صبح یوم النحر سے قبل نہیں ہے۔ ہاں فرق اس قدر ہے کہ زکوٰة میں ملک نصاب ہی کو اور صدقہ میں رأس یمونة ویلی علیہ کو اور قربانی میں ایام نحر کو سبب قرار دیاگیا ہے۔

ہرحال قربانی مالی عبادت ہے جیسے کہ زکوٰة اور قدرت علی النصاب دونوں میں علّتِ موٴثرہ ہے لہٰذا حق مالی ہونے کی وجہ سے اصل وظیفہ تصدق بالمال ہونا چاہئے تھااور وہ مقید بالوقت بھی نہ ہوتا مگر وقت مخصوص میں اللہ تعالیٰ کی خاص مصلحت کے تحت اراقة الدم کو جوکہ اتلافِ نفس ہے تصدق کے قائم مقام کردیا گیا اوراراقة قربة غیرمعقولہ ہے اس لیے موقت اور مقید بالوقت ہوگیا۔

لان الاصل فی الاموال التقرب بالتصدق بہا لا بالاتلاف وہو الاراقة الا انہ نقل الی الاراقة مقیدًا فی وقت مخصوص حتی یحل تناول لحمہ للمالک والا جنبی والغنی والفقیر لکون الناس اضیاف اللّٰہ عز شانہ فی ہذا الوقت فاذا مضی الوقت عاد الحکم الی الاصل وہو التصدق بعین الشاة سواء کان معسرا او موسرا (بدائع:۵/۶۸)

ولا نوجب التصدق بالشاة او بالقیمة باعتبار قیامہ مقام التضحیة بل باعتبار احتمال قیام التضحیة مقام التصدق اصلاً اذ ہو المشروع فی باب المال ولہذا لم یعد الی المثل بعود الوقت (حسامی:۴۰)

وجوب فی الذمہ قبل صبح النحر کا عقلی ثبوت

قربانی کا وجوب فی الذمہ صبح یوم النحر سے پہلے عقلاً بھی ثابت ہوتا ہے کیونکہ وقت (ایام نحر) شرطِ اداء ہے اور اداء کا وجوب اداء سے بالکل متصل رہتا ہے پس اگرکسی غنی مقیم نے دیہات میں صبح یوم النحر ہوتے ہی بلا تاخیر جانور ذبح کیااور یہ قربانی بالاتفاق صحیح ہے تو لامحالہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ وقت سے پہلے اس کا ذمہ مشغول بالواجب رہا ہو کیونکہ وجوب اداء جو وقت ہی میں خطابِ الٰہی سے ہوتا ہے اس سے پہلے نفس وجوب کا ہونا لازم ہے اوراصل وجوب منفک اورمقدم ہوتا ہے وجوبِ اداء سے۔ فثبت ان اصل الوجوب قد وجد بالغنا قبل صبح یوم النحر. فافہم

(باقی آئندہ)

________________________________

ماہنامہ دارالعلوم ، شماره 10-11 ، جلد : 92 ذيقعده 1429 ھ مطابق اكتوبر - نومبر 2008ء